“ایران صرف پراکسی وار کا ماہر نہیں — 1980 میں اس نے آٹھ سال طویل براہِ راست جنگ بھی لڑی۔”

ایران کی تاریخ میں سب سے بڑی اور اہم براہِ راست جنگ **ایران-عراق جنگ** ہے، جو 1980 سے 1988 تک جاری رہی۔ اس جنگ کا آغاز اس وقت ہوا جب عراق کے صدر صدام حسین نے ایران پر حملہ کیا، اس امید کے ساتھ کہ انقلاب کے بعد کمزور ہوا ایران آسانی سے مغلوب ہو جائے گا۔ اس جنگ کے پس منظر میں کئی عوامل کارفرما تھے، جن میں سرحدی تنازعات، مذہبی اور سیاسی اثر و رسوخ کے اختلافات، اور مشرق وسطیٰ میں بالادستی حاصل کرنے کی خواہش شامل تھی۔
یہ جنگ آٹھ سال تک جاری رہی، جس میں لاکھوں افراد مارے گئے اور دونوں ممالک کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ عراق نے اس دوران کیمیکل ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا، جو اس جنگ کی شدت اور سفاکی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس جنگ کا کوئی واضح فاتح نہیں نکلا، لیکن اس نے خطے کے توازن کو بدل کر رکھ دیا۔
اس جنگ کے بعد ایران نے اپنی فوجی حکمت عملی میں تبدیلی کی، جہاں اس نے براہِ راست جنگ کے بجائے **پراکسی جنگوں** پر زور دیا۔ حزب اللہ لبنان، حوثی باغی یمن، اور عراق میں شیعہ ملیشیاؤں کی حمایت کے ذریعے ایران نے علاقائی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی۔ اب 2025 میں اسرائیل پر کیے گئے میزائل حملے ایران کی اس نئی جارحانہ پالیسی کا حصہ ہیں، جو براہِ راست مداخلت کی واضح علامت ہیں۔
یہ تاریخی پس منظر ہمیں ایران کے عسکری رویے کی گہرائی اور خطے میں اس کی طاقت کے ارتقاء کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔