ایرانی میزائل صرف ہتھیار نہیں، بلکہ عزم اور ثابت قدمی کی داستان ہیں جو ہر بار طاقتور دفاعی نظاموں کو چکما دے رہے ہیں۔

ایران کے بیلسٹک میزائل جب اصفہان سے اسرائیل کی جانب فائر ہوتے ہیں تو انہیں روکنے کے لیے دنیا کے جدید ترین دفاعی نظام اور عالمی طاقتیں ایک ساتھ کام کرتی ہیں۔ عراق میں موجود امریکی فوج، یو اے ای کی فضاؤں میں فرانس کے رافیل طیارے، خلیج فارس میں امریکی طیارہ بردار جہاز USS Carl Vinson اور جدید میزائل ڈسٹرائرز، اردن کی فضائیہ، قبرص سے برطانوی رائل ائر فورس کے فائٹرجیٹس، اور اسرائیل کا اعلیٰ ترین ایئر ڈیفنس نظام سب مل کر انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ میزائل ان تمام دفاعی جال کو چیر کر نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل کے ایرو تھری، ایرو ٹو اور ڈیوڈ سلنگ دفاعی نظام، جن کی رینج سینکڑوں کلومیٹرز تک پھیلی ہوئی ہے، میزائلوں کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد آئرن ڈوم ہوتا ہے جو آخری دفاعی لائن کے طور پر میزائل کو 4 سے 70 کلومیٹر کی رینج میں تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ایرانی میزائل اپنی تمام تر مشکلات اور جدید دفاعی رکاوٹوں کے باوجود کئی بار اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جو کہ ان کی تکنیکی مہارت اور عزم کی دلیل ہے۔ ایران کے یہ میزائل خود ساختہ ہیں جبکہ انہیں روکنے والے نظام دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ہتھیار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اگر چند میزائل تل ابیب میں اسرائیلی ٹھکانوں کو نشانہ بنا بھی دیں تو یہ ایران کی بہت بڑی کامیابی شمار کی جاتی ہے۔ اگر دنیا ایران کی مدد نہیں کر سکتی تو کم از کم ان کے عزم کی توہین نہ کی جائے۔ ایران کا یہ عزم اور استقلال خطے میں طاقت کا توازن بدلنے کی کوشش ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
آپ کی رائے کیا ہے؟ کیا ایران کا یہ عزم واقعی اسرائیل کے خلاف طاقت کا توازن بدلنے والا ہے.