“ایران کی انسداد دہشت گردی پولیس نے 10 پاکستانی اغوا شدگان کو بازیاب کر کے اہم کامیابی حاصل کر لی!”

ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان و بلوچستان میں انسداد دہشت گردی پولیس نے ایک مربوط آپریشن کے دوران آوارگی اور اسمگلنگ کے شبہ میں اغوا کیے گئے دس پاکستانی شہریوں کو بازیاب کروا لیا ہے۔ یہ افراد مبینہ طور پر ایران سے خلیجِ فارس عبور کرنے کے لیے سمگلروں کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے۔ ذیل میں اس واقعے کی تفصیلات پیش کی جا رہی ہیں:
* **سرحدی علاقے کا جغرافیہ:**
سیستان و بلوچستان صوبہ پاکستان کے بلوچستان سے ملحق ہے اور اس کے وسیع و عریض صحرائی علاقے اسمگلنگ اور غیر قانونی سرحد پار کرنے والوں کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اسی سمت سے بڑی تعداد میں لوگ، خصوصاً بلوچستان کے نوجوان، غیر قانونی طور پر ایران اور اس کے بعد خلیجِ فارس کے ممالک تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
* **اسمگلنگ کا نیٹ ورک:**
ماہرین کے مطابق اسمگلروں کی ایک بڑی تنظیم بلوچ دیہاتوں اور آزاد سرحد کے قریبی علاقوں میں فعال ہے، جو انسانی اسمگلنگ کے علاوہ منشیات اور دوسری غیر قانونی اشیا کی ترسیل کا بھی گروہ بن چکی ہے۔

## اغوا کا واقعہ

* **کتنے افراد اغوا ہوئے؟**
ایرانی حکام کے مطابق گزشتہ ماہ کے آخر میں تقریباً 10 پاکستانی شہری موقعِ واردات پر گرفتار ہوئے۔ ان میں زیادہ تر 20 سے 35 سال کے درمیان کے نوجوان شامل تھے۔
* **مقام اور طریقہ کار:**
اغوا بڑی حد تک بلوچستان کے سرحدی علاقے تفتان-زاہدان شاہراہ کے قرب و جوار میں ہوا۔ اغوا کرنے والے مسلح اسمگلر گروہ عموماً رات کے وقت سڑکوں پر کم رفتار گاڑیوں کے ذریعے پاکستانی شہریوں کو روک کر اغوا کرتے، پھر انہیں بیابان میں واقع کسی پوشیدہ ٹھکانے پر منتقل کر دیتے۔

## ایرانی انسداد دہشت گردی پولیس کا آپریشن

1. **انٹیلی جنس ان پٹ:**
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ مقامی سکیورٹی فورسز نے خفیہ اطلاع کے ذریعے یہ علم حاصل کیا کہ پاکستانی شہری اسلحہ بردار اسمگلروں کے قبضے میں ہیں اور انہیں خلیجِ فارس کے راستے بھاری رقوم کے عوض غیر قانونی طور پر بھیجا جانا تھا۔
2. **تیاری اور چھاپہ:**

* انسداد دہشت گردی پولیس نے فوراً ہی تین ٹیمیں تشکیل دیں، جن میں سرحدی محافظ (Border Guards)، پاسدارانِ انقلاب (IRGC) اور صوبائی پولیس شامل تھیں۔
* آپریشن کی کمانڈ کلنگ اورنگ کے نامی ایک سینئر ڈیولوشن افسر کے سپرد تھی، جنہوں نے علاقے کے دیہی راستوں اور پہاڑی پٹیوں کا گہرا مطالعہ کیا۔
3. **آپریشن کے مراحل:**

* **مرحلہ اول:** علاقے کے داخلی و خارجی راستوں کو بند کیا گیا اور نامعلوم گاڑیوں کی تلاشی کے لیے ناکے نصب کیے گئے۔
* **مرحلہ دوم:** جب خفیہ ٹھکانے کے قریب پہنچنے والی خالی گاڑیوں کی مشتبہ نقل و حرکت دیکھی گئی، تو انسداد دہشت گردی پولیس نے گھیراؤ کی کارروائی انجام دی۔
* **مرحلہ سوم:** ٹھکانے سے اچانک چھاپہ مار کر 10 پاکستانی شہریوں کو محفوظ حالت میں بازیاب کروا لیا گیا اور اغوا کاروں نے بھاگنے کی کوشش کی مگر فائرنگ کے تبادلے کے بعد دو مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ باقی فرار ہونے میں کامیاب رہے، مگر تلاشی کے جاری آپریشن میں ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔

## بازیابی اور حوالگی

* **طبی معائنہ اور ابتدائی طبی امداد:**
ریسکیو کے فوراً بعد ضلعی اسپتال زاہدان میں 10 پاکستانی شہریوں کا ابتدائی طبی معائنہ کیا گیا۔ ان میں سے چار افراد نیم فاقہ زنجیری شکار تھے اور جلدی علاج کی ضرورت تھی۔ ا س کے بعد انہیں اسپتال سے ڈسچارج کر کے خصوصی بس کے ذریعے ایرانی سرحد پار پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا۔
* **پاکستانی سرحدی حکام کو حوالگی:**
ایرانی سرحدی فورس نے انہیں تفتان بارڈر کراسنگ پر پاکستانی ایف سی (فرنٹیئر کانسٹیبلری) کے حوالے کیا۔ پاکستانی ایف سی کے جنرل قمر خان نے بتایا کہ بازیاب ہونے والے شہریوں کو فوری طور پر کوئٹہ منتقل کرنے کا بندوبست کیا گیا، جہاں ان کے لواحقین سے ان کی ملاقات کروائی گئی۔

## حکام اور اہل خانہ کے بیانات

1. **ایرانی حکام کا بیان:**
صوبائی گورنمنٹ کے ترجمان نے کہا:

> “انسداد دہشت گردی پولیس نے بروقت اور دقیق انٹیلی جنس کے ذریعے ایک محفوظ اور مؤثر آپریشن انجام دیا، جس کے نتیجے میں 10 قیمتی جانیں بچائی گئیں۔ یہ کامیابی سرحدی تحفظ اور دوستی کی بہترین مثال ہے۔”
2. **پاکستانی سفارتخانے کا ردِ عمل:**

* اسلام آباد میں پاکستانی سفارتی ذرائع نے اس آپریشن کو سرِ آنکھوں پر بٹھایا اور ایرانی ٹیم کی کاوشوں کو سراہا۔
* پاکستانی سفارت خانے نے تمام بازیاب شہریوں کو طبی امداد، کھانا پینا اور عبوری رہائش کی سہولت فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا۔
3. **بازیاب شہریوں اور خاندانی حوالہ جات:**

* بازیاب ہونے والے ایک نوجوان، حنیف بلوچ نے بتایا کہ وہ نوکری کی تلاش میں ایران آئے تھے، مگر راستے میں اسمگلرز نے انہیں اغوا کر لیا تھا۔
* ان کے والد نے آنسوؤں کی نمی کے ساتھ کہا:

> “ہم نے ہر جگہ ان کی خبر لی، ہر طرح کی مدد کے لیے ہاتھ پھیلائے، مگر دعا یہ تھی کہ اللہ سب کو محفوظ واپس لائے۔ ایرانی حکام نے واقعی ایک انسانیت دوست اقدام کیا ہے۔”

## علاقائی صورتحال اور آئندہ اقدامات

* **اسمگلنگ رہنماؤں کی شمولیت پر کام:**
تفتان اور چمن بارڈر پر اسمگلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران اور پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیز نے سرحدی نگرانی کے اقدامات بڑھا دیے ہیں۔ دونوں ممالک مشترکہ گشت اور نگرانی مہمات کا سلسلہ بھی مزید فعال کریں گے۔
* **ایس او پیز (SOPs) اور باضابطہ تعاون:**

* دونوں ممالک کے وزراتِ داخلہ اور وزراتِ خارجہ کی سطح پر ایک مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا ہے، جو سرحدی خلاف ورزیوں اور انسانی اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے کوآرڈینیشن کرے گا۔
* پاکستان نے ایرانی حکام سے وعدہ بھی لیا ہے کہ اغوا اور اسمگلنگ کے واقعات کی رپورٹنگ اور تفتیش میں شفافیت رکھی جائے گی تاکہ مستقبل میں شہریوں کو درپیش خطرات کم ہوں۔

یہ واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ خطِ سرحد پر بسنے والے لوگ نہ صرف سرحدی سرکاری پالیسیوں بلکہ اغوا کار اور اسمگلر جیسے غیر قانونی عناصروں کی زد میں بھی رہتے ہیں۔ تاہم، ایران کی انسداد دہشت گردی پولیس اور پاکستانی سرحدی فورسز کے درمیان بہتر تعاون اور بروقت حکمتِ عملی نے دس پاکستانی شہریوں کو ممکنہ انسانی المیے سے بچا لیا۔ امید کی جانی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں دونوں ملک اس تعاون کو مزید مضبوط کریں گے تاکہ سرحدی علاقوں میں امن و امان برقرار رہ سکے اور شہریوں کو بغیر خوف و خطر روزگار یا تعلیم کے سلسلے میں سرحد پار کرنے کا حق میسر ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں