ایران کی جنگ بندی کی شرائط، دراصل اسرائیل کی شکست کا آغاز بن سکتی ہیں۔

ایران کی جانب سے پیش کی جانے والی جنگ بندی کی شرائط نہ صرف سخت ہیں بلکہ اسرائیل اور اس کے حلیفوں، خاص طور پر امریکہ، کے لیے ناقابلِ قبول بھی ہیں۔ ان شرائط میں غزہ سے مکمل فوجی انخلاء، برسوں سے جاری ناکہ بندی کا خاتمہ، غزہ کی تعمیرِ نو، لبنان سے بھی صہیونی فوج کا پیچھے ہٹنا، اور سب سے اہم، ایران و امریکہ کے درمیان بنیادی اختلافات کا حل شامل ہے۔

یہ مطالبات نیتن یاہو کے لیے صرف سیاسی زوال کا باعث نہیں بن سکتے بلکہ اسرائیلی ریاست کی سالمیت کو بھی ہلا سکتے ہیں۔ یہ وہ مطالبات ہیں جو کسی فاتح کی زبان سے نکلتے ہیں، نہ کہ ایک دباؤ کا شکار ملک کی جانب سے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری خفیہ مذاکرات کی حقیقت بھی جلد آشکار ہونے والی ہے۔ ان مذاکرات میں شامل افراد کے بیانات اور شواہد واضح کر دیں گے کہ جنگ کا آغاز کس فریق نے کیا، کس نے اس میں نقصان اٹھایا، اور کون اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

گزشتہ رات ایران کی جانب سے قطر میں امریکی فوجی اڈے پر کیا گیا حملہ محض عسکری کارروائی نہیں، بلکہ ایک واضح پیغام تھا — “اب ہم دفاع نہیں، فیصلہ کن کارروائی کر رہے ہیں”۔ اس حملے نے امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنا نکتہ نظر بدلے، اور اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے۔

اگر جنگ بند ہوتی ہے اور ایران اپنی شرائط پر یہ اختتام ممکن بناتا ہے، تو یہ محض سفارتی کامیابی نہیں بلکہ صہیونی منصوبہ بندی کی 10 سالہ محنت کا 13 دن میں دھڑن تختہ ہوگا۔ یہ واقعہ نہ صرف خطے کے توازن کو بدل دے گا، بلکہ اسرائیل کے عسکری رعب کو بھی زمین بوس کر سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں