“ایران کا پیغام واضح ہے: ‘ہم کمزور نہیں، ہر وار کا جواب بھرپور وار سے دیں گے۔'”

ایران نے ایک بار پھر عالمی سطح پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اسرائیلی حملوں کو صرف برداشت نہیں کرے گا، بلکہ بھرپور جواب دینے کی مکمل صلاحیت اور ارادہ رکھتا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ایران پر متعدد اسرائیلی حملوں کی اطلاعات سامنے آئیں، جن میں شام میں ایرانی تنصیبات، پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈرز، اور حساس فوجی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔

تاہم، اس بار ایران نے غیر معمولی انداز میں براہِ راست فوجی ردِعمل کا مظاہرہ کیا۔
اپریل 2024 میں ایران نے اسرائیل کی جانب براہِ راست بیلسٹک میزائل اور ڈرون حملے کیے، جن میں اگرچہ زیادہ تر کو اسرائیلی ڈیفنس سسٹم نے ناکام بنا دیا، لیکن یہ اقدام ایران کی عسکری صلاحیتوں اور اس کی ’ڈیٹرنس ڈاکٹرائن‘ کا عملی اظہار تھا۔

ایران کا مقصد کیا تھا؟
سیاسی پیغام رسانی: ایران نے یہ ظاہر کیا کہ وہ خطے میں یکطرفہ اسرائیلی جارحیت کو چیلنج کرنے کے لیے تیار ہے۔

علاقائی حمایت: ایران کے اس اقدام کو شام، لبنان (حزب اللہ) اور عراق کے شیعہ ملیشیا گروپوں کی خاموش تائید حاصل تھی، جو اس بات کی علامت ہے کہ ایران صرف تنہا نہیں، بلکہ ایک علاقائی بلاک کا حصہ ہے۔

عسکری قوت کا مظاہرہ: ایرانی حملے اس کے میزائل پروگرام اور ڈرون ٹیکنالوجی کی ترقی کی علامت بنے، جس سے اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کو سخت پیغام گیا۔

اسرائیلی ردعمل
اسرائیل نے ان حملوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا اور مزید جارحانہ اقدامات کا اشارہ دیا۔ تاہم، ایران کی براہِ راست کارروائی نے اسرائیل کی اُس حکمت عملی کو چیلنج کر دیا جس کے تحت وہ خطے میں بغیر کسی شدید جوابی ردِعمل کے کارروائیاں کرتا رہا ہے۔

ایران کے حملے سے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن مزید بگڑ چکا ہے۔ امریکا، یورپی یونین، اور اقوامِ متحدہ نے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی، لیکن دونوں ممالک کے بیچ کشیدگی انتہا کو چھو رہی ہے۔“دھماکوں کی گونج، سائرن کی چیخ اور خاموشی کی پابندی — اسرائیل کے وسطی علاقے ایک بار پھر خطرے کی زد میں ہیں۔”

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں