“ایران کا نمبر کل سے لگا ہوا ہے، لیکن اگر نمبر پاکستان کا ہے؟” — نیتن یاہو کا اشارہ کس طرف؟

اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے مبینہ بیان نے عالمی سطح پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ان کا کہنا ہے:
“ایران کا نمبر تو کل سے لگا ہوا ہے، لیکن اگر نمبر پاکستان کا ہی نکلے؟”
یہ بیان بظاہر غیر روایتی ہے، لیکن اس کے پیچھے کئی ممکنہ مقاصد اور پیغامات چھپے ہو سکتے ہیں:
سفارتی دباؤ یا اشارہ:
نیتن یاہو ممکنہ طور پر پاکستان کو متنبہ کر رہے ہیں کہ اگر پاکستان کی طرف سے ایران کی کسی قسم کی مدد، خفیہ یا عسکری، سامنے آتی ہے تو اسرائیل اس پر خاموش نہیں بیٹھے گا۔
انٹیلی جنس پر مبنی الزام:
یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جنس کو کچھ ایسے شواہد ملے ہوں جن سے اندازہ ہو رہا ہو کہ ایران کی جانب سے استعمال ہونے والی کسی ٹیکنالوجی یا رابطہ میں پاکستان کا کوئی تعلق ہے، جیسے مواصلاتی نیٹ ورک، سرور، یا لاجسٹک سپورٹ۔
نفسیاتی جنگ کا حصہ:
اس قسم کے بیانات عمومی طور پر نفسیاتی دباؤ پیدا کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں تاکہ کسی ممکنہ مخالف کو غیر یقینی کی حالت میں رکھا جائے۔
پاکستان کو عالمی سطح پر مشتبہ بنانے کی کوشش:
اسرائیل اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں، اور ایسے میں پاکستان کا نام لے کر اسے ایران سے جوڑنے کی کوشش، دراصل پاکستان کو عالمی تنہائی میں دھکیلنے کی ایک چال ہو سکتی ہے۔
پاکستان کا ممکنہ ردعمل:
پاکستان نے ہمیشہ ایران-اسرائیل تنازع میں غیر جانبداری کی پالیسی اپنائی ہے، لیکن اسرائیلی بیانیے میں پاکستان کا ذکر خطرناک سمت کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستانی دفترِ خارجہ ممکنہ طور پر اس بیان پر سفارتی وضاحت یا ردعمل دے گا۔