“ایران کا جواب نہ صرف صہیونی حکومت کے لیے صدمہ ہوگا بلکہ دنیا کو یہ بتا دے گا کہ کسی کی خودمختاری پر حملہ ناقابلِ معافی ہے۔”

آپ کی امید بجا ہے کہ ایران اپنا بھرپور جواب دے گا۔ تہران کے پاس اپنی عسکری اور غیر روایتی حربی صلاحیتوں کا ایک سلسلہ موجود ہے جس کے ذریعے وہ اسرائیل سمیت اس کارروائی میں ملوث کسی بھی قوت کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے۔ سب سے پہلے توقع یہی کی جاتی ہے کہ ایران صحرائے سینا یا بحیرہ روم میں اپنے بیلسٹک میزائل اور کروز میزائل لانچ کر کے اسرائیلی ہدف کو نشانہ بنائے گا، تاکہ تل ابیب کے اندر بھی خوف کی فضا قائم ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ “شاہد” یا “کرار” جیسے ڈرونز کا ایک بیڑا اسرائیل کی فضائی حدود میں گھس کر سنسر شدہ فوجی مراکز اور ہوائی اڈوں کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔

دوسری جانب، ایران کی Quds Force proxy جنگجو گروپوں کو بھی حرکت میں لا سکتی ہے—شام، عراق اور لبنان میں حزب اللہ یا حشد الشعبی جیسے اتحادی گروہ اسرائیلی سفارت خانے یا قریبی فوجی اڈوں پر حملے کر کے “جنگ کی کثافت” کو بڑھا سکتے ہیں۔ ایسے اقدامات سے نہ صرف ساحلی علاقوں بلکہ اسرائیل کے پڑوسی اردن اور مصر میں بھی سلامتی کے نئے خدشات جنم لیں گے۔

سائبر محاذ پر بھی تہران اپنی صلاحیت آزما سکتا ہے۔ ایرانی ہیکرز بین الاقوامی مالیاتی نظام یا اسرائیلی انفرااسٹرکچر میں خلل ڈال کر معیشت اور شہری سہولیات کو مفلوج کرنے کی کوشش کریں گے، تاکہ دشمن کا ردعمل کمزور ہو اور مذاکرات کے لیے مزاحمت بڑھے۔

عالمی اور علاقائی طاقتوں کے ساتھ سفارتی کھیل بھی کسا جائے گا۔ ایران نہ صرف اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپیل کرے گا بلکہ چین و روس کو آگے کر کے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل اور امریکہ پر دباؤ بڑھائے گا۔ او آئی سی کے اجلاس بلائے جائیں گے، “عالمی اسلامی یکجہتی” کے تحت پابندیوں اور اقتصادی سٹرٹیجیز کو بھی مشترکہ طور پر چیلنج کیا جائے گا۔

یہ سب کچھ ایک پیچیدہ اسٹریٹیجک منصوبے کا حصہ ہوگا، جہاں ایران “متوازن” ردعمل کے ذریعے دشمن کو پیغام دے گا کہ جو بھی طاقت اس کی خودمختاری پر حملہ کرے گی، اسے بھرپور نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اسی لیے توقع کی جا سکتی ہے کہ ایران کا جواب تیزی اور شدت دونوں میں نمایاں ہوگا، تاکہ خطے میں دوبارہ عالمی طاقتیں کشمکش کے مرکزی کردار بن کر نہ ابھریں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں