ایران کا حیران کن وار — اسرائیل کا خفیہ تحقیقی مرکز ویزمین انسٹی ٹیوٹ نشانے پر!

“اسرائیل تنہا رہ گیا — امریکہ نے ایران کے خلاف جنگ میں شمولیت سے صاف انکار کر دیا!”
الجزیرہ کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران کی جانب سے کیے گئے حالیہ میزائل حملے میں اسرائیل کا انتہائی حساس اور خفیہ تحقیقی مرکز “ویزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس” براہِ راست نشانے پر آ گیا۔ ماہرین اور مبصرین اس حملے کو ایک بڑی اسٹریٹیجک کامیابی اور خطے میں طاقت کے توازن کو بدل دینے والا واقعہ قرار دے رہے ہیں۔
یہ ادارہ تل ابیب کے قریب واقع ہے اور عام طور پر اتنا حساس سمجھا جاتا ہے کہ گوگل میپس پر بھی اس کی مکمل تصاویر دستیاب نہیں۔ لیکن حالیہ سیٹلائٹ تصاویر اور میدان سے موصول ہونے والے مناظر اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ انسٹی ٹیوٹ کی کئی عمارتیں شدید نقصان سے دوچار ہوئی ہیں۔
🔬 ویزمین انسٹی ٹیوٹ کیا تھا؟
ویزمین انسٹی ٹیوٹ کو اسرائیل کے سائنسی اور دفاعی نیٹ ورک میں ایک مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ یہاں پر:
مصنوعی ذہانت (AI)
ڈرون ٹیکنالوجی
بایو ٹیکنالوجی
کیمسٹری و طبیعیات
دفاعی میزائل ٹیکنالوجی
جیسے حساس شعبوں پر ریسرچ کی جاتی تھی۔ اس ادارے میں ہونے والی تحقیق براہ راست اسرائیلی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو فراہم کی جاتی تھی، جس سے اسرائیل کی ٹیکنالوجیکل برتری کو مضبوط رکھا جاتا تھا۔
🎯 ایران کا نشانہ کیسے اتنا درست تھا؟
ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ ایران نہ صرف اس ادارے کی درست جغرافیائی لوکیشن تک پہنچ پایا، بلکہ اس نے حملے میں بالکل مخصوص عمارتوں کو نشانہ بنایا۔ یہ ایران کی:
اعلیٰ انٹیلیجنس صلاحیت
جدید میزائل نیویگیشن
ماہرانہ عسکری منصوبہ بندی
کا ایک زبردست ثبوت مانا جا رہا ہے۔
🛑 اسرائیلی حکومت کی خاموشی:
تاحال اسرائیلی حکومت کی جانب سے اس حملے پر کوئی مفصل بریفنگ یا عوامی اعتراف سامنے نہیں آیا۔ البتہ اندرونی ذرائع اور آزاد رپورٹنگ کے مطابق نقصان انتہائی سنگین نوعیت کا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ویزمین انسٹی ٹیوٹ واقعی مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے، تو یہ اسرائیل کی سائنس، سیکیورٹی اور اسٹریٹیجک صلاحیت پر ایک کاری ضرب ہے جس کے اثرات برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
🧭 کیا یہ نئی جنگ کا آغاز ہے؟
ایرانی حملے نے واضح کر دیا ہے کہ خطے میں اب روایتی “احتیاط” کا دور ختم ہو رہا ہے۔ اسرائیل جیسے ممالک، جو ہمیشہ حملے کرتے آئے ہیں، اب خود بھی براہِ راست جوابی حملوں کی زد میں ہیں۔
یہ واقعہ مشرقِ وسطیٰ کے طاقت کے منظرنامے میں ایک نیا باب کھول سکتا ہے — جہاں ڈپلومیسی کی جگہ ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس لے چکی ہے.