اسلام آباد ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ — سی ڈی اے کی پالیسی غیر قانونی قرار، ادارے کو تحلیل کرنے کی تجویز دے دی گئی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی ایک اہم پالیسی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے نہ صرف 2015 کا رائٹ آف وے چارجز نوٹیفیکیشن کالعدم کر دیا بلکہ سخت ریمارکس دیتے ہوئے سی ڈی اے کے مستقبل پر سوال اٹھا دیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی کی جانب سے جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ سی ڈی اے کا اصل مقصد اب معدوم ہو چکا ہے، اور وقت آ چکا ہے کہ وفاقی حکومت اس ادارے کو ختم کر کے اس کے تمام اختیارات، اثاثے اور ذمہ داریاں میونسپل کارپوریشن اسلام آباد (MCI) کو منتقل کرے تاکہ بلدیاتی نظام آئینی دائرے میں مؤثر طور پر چلایا جا سکے۔

اہم نکات:
نوٹیفیکیشن کالعدم: 2015 میں جاری کیا گیا وہ نوٹیفیکیشن، جس کے تحت بڑی شاہراہوں سے براہِ راست رسائی حاصل کرنے والے پیٹرول پمپس، سی این جی اسٹیشنز اور دیگر اداروں سے “رائٹ آف وے چارجز” لیے جا رہے تھے، غیر قانونی قرار دیا گیا۔

رقوم واپس کرنے کا حکم: عدالت نے ہدایت کی کہ اس پالیسی کے تحت وصول کی گئی تمام رقوم واپس کی جائیں۔

سی ڈی اے پر تنقید: فیصلے میں کہا گیا کہ سی ڈی اے اب وفاقی دارالحکومت کے لیے موزوں ادارہ نہیں رہا، کیونکہ اس کی موجودہ حیثیت اسلام آباد لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2015 سے متصادم ہے۔

آرٹیکل 23 کا حوالہ: عدالت نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 23 ہر شہری کو ملک میں کہیں بھی جائیداد خریدنے، رکھنے اور منتقل کرنے کا حق دیتا ہے، بشرطیکہ یہ عوامی مفاد کے مطابق ہو۔

درخواست گزار کا موقف:
درخواست گزاروں کا تعلق ریور گارڈن ہاؤسنگ اسکیم سے تھا، جسے سی ڈی اے 2001 میں منظور کر چکی ہے اور این او سی 2007 میں جاری کی گئی۔ ان کے مطابق وہ تمام ترقیاتی اخراجات اور ضوابط کی پابندی کر چکے ہیں، اس کے باوجود غیر قانونی چارجز وصول کیے جا رہے تھے۔

یہ فیصلہ نہ صرف اسلام آباد میں مقامی حکومت کے نظام کو واضح کرتا ہے بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اب پرانے وفاقی اداروں کو بلدیاتی قوانین کے تابع لانا ضروری ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں