“اسرائیلی فضائیہ کی بیک وقت یمن، شام اور لبنان پر بمباری — مشرق وسطیٰ ایک نئی جنگی دہلیز پر؟”

اسرائیلی فضائیہ کی جانب سے بیک وقت یمن، شام اور لبنان پر بمباری مشرق وسطیٰ میں ایک نئی اور خطرناک جنگی صورتحال کی نشاندہی کرتی ہے۔ ان حملوں کی بنیادی وجہ اسرائیل کا یہ خدشہ ہے کہ ان ممالک میں موجود مسلح گروہ، خصوصاً ایران کے حمایت یافتہ حوثی، حزب اللہ اور شامی ملیشیائیں، حماس کے خلاف جاری جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ مداخلت کر سکتے ہیں۔ اسرائیل ان گروہوں کو ایران کے اتحادی نیٹ ورک کا حصہ سمجھتا ہے اور ان پر حملہ کر کے ایران کو ایک سخت پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ خطے میں اس کے اثر و رسوخ کو قبول نہیں کرے گا۔
یمن میں حوثیوں نے حالیہ ہفتوں میں بحیرہ احمر میں اسرائیلی اور مغربی مفادات پر ڈرون و میزائل حملے کیے، جس پر اسرائیل نے الحدیدہ بندرگاہ سمیت مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا۔ شام اور لبنان میں موجود ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو بھی اسرائیل مستقبل کے ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھتا ہے، اس لیے ان پر پیشگی حملہ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ کسی بڑے حملے کے قابل نہ رہیں۔
اسرائیل کی یہ جارحانہ حکمت عملی بظاہر اس کے دفاع کے لیے ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے خطے میں کشیدگی انتہائی سطح پر پہنچ سکتی ہے۔ ساتھ ہی اسرائیل کو اندرونی سیاسی دباؤ اور عالمی تنقید کا بھی سامنا ہے، جس سے توجہ ہٹانے کے لیے بھی یہ کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ ان حملوں کے ذریعے اسرائیل یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ وہ کسی بھی خطرے کے خلاف ایک ساتھ کئی محاذوں پر لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن اس پالیسی سے پورا خطہ ایک وسیع اور تباہ کن جنگ کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
“اسرائیلی فضائیہ کے 50 سے زائد حملے، یمن کی الحدیدہ بندرگاہ مکمل طور پر تباہ — خطے میں جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہونے کا خدشہ!”