تہران کے دل میں اسرائیلی حملہ — امام حسین یونیورسٹی کو نشانہ بنانا صرف ایک حملہ نہیں، بلکہ ایران کی عسکری ریڑھ کی ہڈی پر براہِ راست ضرب ہے۔

اسرائیل کی جانب سے تہران میں واقع امام حسین یونیورسٹی پر مبینہ حملہ مشرق وسطیٰ کی حالیہ تاریخ کا ایک انتہائی خطرناک اور علامتی اقدام ہے۔ یہ یونیورسٹی عام تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (IRGC) کی ایک مرکزی عسکری، تحقیقاتی اور نظریاتی تنصیب ہے جہاں:

میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی پر تحقیق کی جاتی ہے،

اعلیٰ سطحی فوجی افسران کو تربیت دی جاتی ہے،

اور ایران کے اسٹریٹجک دفاعی و جارحانہ نظریات کی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔

اگر اسرائیل واقعی اس مقام کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوا ہے تو یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ:

اسرائیل کی انٹیلیجنس صلاحیت نہایت اعلیٰ ہے،

وہ ایران کے سب سے حساس علاقوں تک رسائی رکھتا ہے،

اور تہران جیسے محفوظ تصور کیے جانے والے دارالحکومت میں بھی محفوظ جگہ کوئی نہیں۔

یہ حملہ محض ایک تنصیب پر حملہ نہیں بلکہ ایران کو یہ پیغام ہے کہ اس کی نظریاتی و عسکری قیادت بھی اب نشانے پر ہے۔ امام حسین یونیورسٹی سے کئی قدس فورس اور IRGC کے کمانڈرز فارغ التحصیل ہو چکے ہیں، جن میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو شام، لبنان، اور عراق میں ایران کے اسٹریٹجک ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہے۔

مزید برآں، اس حملے کے بعد ایران میں سیکیورٹی اداروں، فضائی دفاع، اور داخلی انٹیلیجنس کے حوالے سے سخت سوالات اٹھیں گے:

کیا اسرائیل نے ڈرون یا میزائل استعمال کیے؟

کیا یہ حملہ اندرونی معاونت (insider help) کے بغیر ممکن تھا؟

اور کیا ایران جوابی کارروائی کرے گا یا سفارتی سطح پر مزاحمت کو ترجیح دے گا؟

عالمی ردعمل بھی اہم ہوگا۔ تہران پر براہ راست حملہ خطے میں نئی کشیدگی کو جنم دے سکتا ہے، جس میں خلیجی ممالک، امریکہ، اور نیٹو طاقتیں بھی گھسیٹی جا سکتی ہیں۔
امام حسین یونیورسٹی پر حملہ ایک سنگین پیغام ہے کہ اسرائیل اب صرف نیوکلیئر پروگرام کو نہیں بلکہ ایرانی فوجی نظریے کے مراکز کو بھی نشانہ بنانے کی پالیسی پر چل پڑا ہے۔ یہ حملہ ایران کی داخلی سیکیورٹی کے لیے بھی ایک نفسیاتی دھچکا ہے، اور آئندہ دنوں میں اس کے وسیع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں