“ایران پر اسرائیلی حملے صرف تل ابیب کی کارروائیاں نہیں، بلکہ واشنگٹن کی خاموش منظوری بھی ان کا حصہ ہے۔”

ایران کی قیادت نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ صہیونی حکومت کے حالیہ جارحانہ اقدامات، جن میں ایران کی اعلیٰ عسکری اور سفارتی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، امریکہ کی ہم آہنگی اور اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتے تھے۔ تہران کا مؤقف ہے کہ اسرائیل کی ایسی بڑی فوجی کارروائیوں کے لیے نہ صرف عملی تعاون بلکہ سیاسی پشت پناہی کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ پشت پناہی واشنگٹن سے آتی ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ اور پاسدارانِ انقلاب کے ذرائع نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ محض تماشائی نہیں رہ سکتا — اگر وہ اسرائیل کو اس طرح کی کارروائیوں کی اجازت دے رہا ہے تو پھر وہ ان کے نتائج کا بھی برابر کا ذمہ دار ہے۔ یہ مؤقف صرف الزامی بیان نہیں بلکہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کا واضح اشارہ ہے، جس میں اب دونوں فریقین ایک دوسرے پر براہِ راست ذمہ داری ڈال رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ الزام بازی محض سیاسی بیانات نہیں بلکہ مستقبل میں ممکنہ عسکری ردعمل کی تیاری کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ ایران کی جانب سے یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ اگر امریکہ اسرائیل کو روکنے میں ناکام رہا تو جوابی کارروائی صرف تل ابیب تک محدود نہیں رہے گی بلکہ وہ امریکی مفادات کو بھی نشانہ بنا سکتی ہے۔
اس صورتحال میں عالمی برادری، خصوصاً اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل، پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کشیدگی کو فوری طور پر روکنے کے لیے مؤثر سفارتی اقدامات کرے، ورنہ ایک مکمل علاقائی جنگ کا خطرہ اب ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔