باری تمام مسلم ممالک کی آنی ہے۔ معمر قذافی کی الفاظ

دنیا میں کچھ رہنما ایسے گزرے ہیں جن کی باتیں ان کے بعد کے حالات کی مکمل عکاسی کرتی ہیں۔ لیبیا کے سابق سربراہ، معمر قذافی بھی انہی میں سے ایک تھے۔ ان کی ایک تقریر میں دی گئی یہ بات آج پھر سے زیر بحث ہے:
“دو فلسطینیوں کا خاتمہ ہونے کے بعد شام، لبنان، مصر، اردن، عراق، سعودی عرب اور تمام خلیجی ریاستوں کی باری آئے گی۔ اور پھر تمام عربوں کو ختم کرنے کے بعد ایران کی باری آئے گی۔”
یہ الفاظ صرف کسی سیاسی لیڈر کے خیالات نہیں تھے، بلکہ وہ اس پورے منصوبے کی طرف اشارہ تھا جسے “گریٹر اسرائیل” کے نظریے کے تحت دنیا کے بعض حلقے بہت پہلے سے پروان چڑھاتے رہے ہیں۔
اسرائیلی توسیع پسندی کا نظریہ “گریٹر اسرائیل” کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے مطابق اسرائیل کی سرحدیں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک پھیلائی جائیں گی۔ اس نقشے میں موجودہ عرب ممالک جیسے مصر، شام، عراق، اردن، سعودی عرب، لبنان اور خلیجی ممالک کا بڑا حصہ شامل ہے۔
معمر قذافی نے یہ واضح طور پر کہا تھا کہ:
“یہ سارا منصوبہ امریکا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے، تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کو واحد طاقت کے طور پر منوایا جا سکے۔”
قذافی کی پیش گوئیاں: ایک ایک کر کے سچ بنتی ہوئیں
قذافی کی موت کے بعد مشرق وسطیٰ میں جو کچھ ہوا، وہ ان کے الفاظ کی تصدیق کرتا ہے:
عراق: صدام حسین کے بعد خانہ جنگی، امریکی مداخلت، داعش، شیعہ-سنی تقسیم۔
شام: بشار الاسد کے خلاف خانہ جنگی، لاکھوں مہاجر، داعش کا عروج۔
لیبیا: قذافی کے بعد خانہ جنگی، حکومتی تقسیم، غیر ملکی مداخلت۔
یمن: سعودی اور ایرانی پراکسی جنگ، انسانی بحران۔
لبنان: معیشت کی تباہی، سیاسی عدم استحکام۔
فلسطین: اسرائیلی جارحیت، غرب اردن اور غزہ پر شدید حملے۔
ایسا لگتا ہے کہ خطے میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران اور مذہبی تفریق پیدا کی جا رہی ہے، تاکہ مسلمانوں کو باہمی طور پر تقسیم کیا جا سکے۔
قذافی نے کہا تھا:
“یہ جنگ صرف زمین کی نہیں، بلکہ نظریات کی ہے۔ اگر ہم متحد نہ ہوئے تو ایک ایک کر کے شکار ہوتے جائیں گے۔”
امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ:
سیاسی بیداری پیدا کرے۔
مسلم اتحاد کو فروغ دے۔
تاریخی حقائق کو جانے اور سیکھے۔
عالمی سازشوں کو سمجھے اور ان کے خلاف منظم حکمت عملی اپنائے۔
آج جو کچھ فلسطین، شام، عراق، لیبیا، یمن اور دیگر مسلم ممالک میں ہو رہا ہے، وہ معمر قذافی کی تنبیہات کو درست ثابت کر رہا ہے۔ اگر مسلم دنیا اب بھی نہ جاگی، تو “باری تمام مسلم ممالک کی” واقعی آ سکتی ہے۔
“تاریخ کے صفحات پر زندہ رہنے کے لیے، ہمیں اپنے حال کو سمجھنا ہوگا اور اپنے مستقبل کی حفاظت کرنی ہوگی۔”