“کابینہ کا حکم تھا، پھر بھی افسران گرفتار کیوں؟” — وزیراعلیٰ بلوچستان کا اینٹی کرپشن پر سخت ردِعمل

بلوچستان حکومت نے ایک اہم اور غیر معمولی فیصلے میں رواں سال گندم نہ خریدنے کا اعلان کر دیا ہے، جس کی وجہ گوداموں میں پہلے سے موجود ذخیرہ اور جگہ کی کمی بتائی گئی ہے۔ اس فیصلے کے ساتھ ساتھ گندم کی قیمت میں بھی نمایاں کمی کی گئی ہے، جہاں 100 کلو بوری کی قیمت 5500 روپے سے کم کر کے 4500 روپے کر دی گئی۔
یہ فیصلہ بلوچستان کابینہ کے حالیہ اجلاس میں ہوا، جہاں وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے گندم کی فروخت میں تاخیر پر سخت سوالات اٹھائے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ جب کابینہ نے گندم فروخت کرنے کی منظوری دے دی تھی تو پھر عملدرآمد میں تاخیر کیوں ہوئی؟
وزیر خوراک نور محمد دمڑ نے وضاحت دی کہ اگرچہ کابینہ کی منظوری مل چکی تھی، لیکن منٹس 4 اپریل کو جاری ہوئے تھے۔ تاہم، ان کا دعویٰ تھا کہ محکمہ خوراک نے منٹس کے اجرا سے پہلے ہی گندم کی فروخت کا عمل شروع کر دیا تھا، لیکن اس دوران اسسٹنٹ کمشنر کی جانب سے چھاپہ مارا گیا اور اینٹی کرپشن کی کارروائی میں محکمہ خوراک کے افسران کو گرفتار کر لیا گیا۔
یہ انکشاف سن کر وزیراعلیٰ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کابینہ کا باقاعدہ فیصلہ موجود تھا تو اینٹی کرپشن کو کس اختیار کے تحت محکمے کے افسران کو گرفتار کیا گیا؟ انہوں نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ فوری طور پر سیکرٹری ایس اینڈ جی اے ڈی سے اس معاملے پر تفصیلی رپورٹ طلب کی جائے۔
یہ صورتحال نہ صرف انتظامی پیچیدگیوں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ حکومت کے اندر رابطے کی کمی اور اختیار کے دائرے سے باہر کی جانے والی کارروائیوں پر سوالات بھی کھڑے کرتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کی ہدایت پر کیا ایکشن لیا جاتا ہے اور گندم کی فروخت کا عمل دوبارہ کس طرح منظم ہوتا ہے۔