“بس 2 منٹ کے لیے پہاڑ پر گیا… اور پیچھے میری پوری دنیا بہہ گئی”

ایک متاثرہ شخص کی کہانی، جو کسی رپورٹ میں مکمل نہیں آ سکتی
سیلاب صرف پانی کا بہاؤ نہیں، یہ زندگیوں کا اُجڑنا ہے۔ ہر سال جب پانی بستیوں میں داخل ہوتا ہے، وہ صرف گھروں، سڑکوں اور فصلوں کو نہیں بہاتا — وہ خواب، خاندان، اور پوری زندگیاں نگل جاتا ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا، لیکن اس بار درد کچھ زیادہ گہرا، کچھ زیادہ ناقابلِ بیان ہے۔
ایک شخص، جو صرف دو منٹ کے لیے پہاڑ پر گیا، جب واپس آیا تو سیلاب اس کے نو عزیزوں کو ساتھ لے جا چکا تھا۔ نہ کوئی آواز، نہ الوداع، نہ آخری دیدار — صرف پانی کی شور، اور خالی پن کی گونج۔ اب بس ایک التجا باقی ہے:
“لاشیں مل جائیں، تاکہ دفن کر سکوں، تاکہ سکون آ سکے۔”
ایسی درجنوں نہیں، سینکڑوں کہانیاں ہیں۔ کہیں ماں اپنے بچوں کے ساتھ بہہ گئی، کہیں بیٹی کی شادی کی تیاریوں کو سیلاب بہا لے گیا، کہیں کوئی بزرگ چھت سے لٹکے رہے جب تک پانی انہیں بھی ساتھ نہ لے گیا۔ یہ وہ درد ہے جسے اعداد و شمار، پریس کانفرنسیں یا سرکاری بیانات بیان نہیں کر سکتے۔
ہم ایک ایسی قوم بن چکے ہیں جہاں ہر سال ایسی کہانیاں دہرائی جاتی ہیں، مگر ان سے سبق نہیں لیا جاتا۔ انتظامیہ کے پاس ہمدردی کے جملے تو ہوتے ہیں، مگر مستقل حل کا کوئی خاکہ نہیں۔ میڈیا کی خبروں میں متاثرین کی تصاویر ضرور آتی ہیں، مگر ان کی چیخیں اُن تک نہیں پہنچتیں جو فیصلے کرتے ہیں۔
یہ صرف موسم کی سختی نہیں — یہ انسانی غفلت، حکومتی نااہلی، اور ہماری اجتماعی بےحسی کا نتیجہ ہے۔