جسٹس سرفراز ڈوگر کا تبادلہ قانونی قرار: سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ.

“ججز کے تبادلے عدالتی آزادی پر حملہ نہیں، بلکہ آئینی دائرہ کار میں انتظامی فیصلہ ہے” — سپریم کورٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے بالآخر ججز ٹرانسفر کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا ہے، جس کے مطابق جسٹس سرفراز ڈوگر کا تبادلہ قانونی اور آئینی قرار دیا گیا ہے۔
پس منظر: یہ معاملہ کیا تھا؟
چند ماہ قبل جسٹس سرفراز ڈوگر کا تبادلہ لاہور ہائیکورٹ سے ایک اور بینچ میں کیا گیا، جس پر مختلف قانونی حلقوں اور وکلا تنظیموں نے اعتراضات اور خدشات کا اظہار کیا تھا۔ مؤقف یہ تھا کہ ایسے تبادلے عدالتی آزادی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور یہ اقدام انتظامیہ کے زیرِ اثر لگتا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ: قانونی اور آئینی دائرہ کار میں ہے
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصلے میں واضح کیا:
جج کا تبادلہ عدالتی سسٹم کا انتظامی معاملہ ہے۔
اس اقدام میں کوئی غیرقانونی یا بدنیتی پر مبنی پہلو نہیں پایا گیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ تبادلہ ایک روٹین پریکٹس کے مطابق کیا گیا، جو قانونی طور پر جائز ہے۔
عدلیہ کی خودمختاری کا توازن
فیصلے میں عدالت نے واضح کیا کہ:
“عدلیہ کی آزادی انتہائی اہم ہے، لیکن انتظامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے بعض اوقات ضروری فیصلے لینے پڑتے ہیں۔”
وکلا اور عوامی ردعمل
عدالتی فیصلے کے بعد قانونی برادری میں مخلوط ردعمل سامنے آیا ہے:
کچھ حلقے فیصلے کو عدلیہ میں احتساب اور نظم کے حق میں قرار دے رہے ہیں۔
کچھ اب بھی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ججز کی ٹرانسفر کا پیمانہ شفاف ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے پاکستان کی عدلیہ میں ایک اہم نظیر قائم ہوئی ہے۔ اب یہ بات مزید واضح ہو گئی ہے کہ ججز کے تبادلوں جیسے انتظامی اقدامات کو مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے، بشرطیکہ وہ شفاف اور قانون کے مطابق ہوں۔