خواجہ آصف کا دبنگ دفاعی بیان: “تلوار ہاتھ دیکھتی ہے، صرف دھار نہیں”

پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے حالیہ گفتگو میں خطے کی بدلتی ہوئی عسکری صورتحال، ایٹمی طاقت کا توازن، اور روایتی جنگوں کی یاد دہانی کراتے ہوئے نہایت پُراعتماد اور تلخ لہجے میں دشمنوں کو واضح پیغام دے دیا ہے۔ ان کے مطابق، ہتھیار اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن اُن کے پیچھے کھڑے فیصلہ ساز، حوصلہ مند اور تجربہ کار ہاتھ زیادہ معنی رکھتے ہیں۔

“تلوار، تلوار ہوتی ہے لیکن تلوار جس ہاتھ میں ہو، وہ بڑا میٹر کرتا ہے۔ حال ہی میں ہندوستان اور اسرائیل دونوں کی صلاحیتیں چیک ہوچکی ہیں، باقی اللہ خیر کرے۔ ہم روایتیں جنگیں بھی لڑ چکے ہیں، ڈکلیئرڈ ایٹمی قوت ہیں۔”

یہ بیان نہ صرف ایک دفاعی یقین دہانی ہے بلکہ ایک سفارتی سگنل بھی کہ پاکستان کسی بھی عسکری یا جغرافیائی مہم جوئی کے لیے تیار ہے — مگر ذمہ داری کے ساتھ۔

علاقائی سیاق و سباق:
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب:

اسرائیل غزہ میں بدترین جنگی کارروائیوں کا سامنا کر رہا ہے۔

بھارت کی دفاعی اسٹریٹجی پر سوالات اٹھ رہے ہیں، خاص طور پر اندرونی شورش، کسان مظاہروں اور خطے میں چین کے بڑھتے اثرات کے تناظر میں۔

پاکستان اندرونی طور پر سیاسی چیلنجز کے باوجود اپنی ایٹمی صلاحیت اور عسکری پوزیشن پر کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں۔
خواجہ آصف کا اصل پیغام یہ ہے کہ:

صرف ہتھیار ہونا کافی نہیں، اصل چیز اُن کا عزم، حکمت اور نیت کے ساتھ استعمال ہے۔

پاکستان نے روایتی جنگیں (1948، 1965، 1971، 1999) لڑی ہیں، اور اُس کی فوج کا تجربہ اور جذبہ کسی شک و شبہ سے بالا ہے۔

ایٹمی طاقت محض “دھمکی” نہیں، بلکہ “ڈیٹرنس” (روک تھام) کا سنجیدہ ذریعہ ہے۔
یہ بیان دراصل ایک عسکری فلسفے کی وضاحت ہے: ہتھیاروں کا وجود خوف پیدا کر سکتا ہے، لیکن اصل حکمت اور فیصلے انسان کرتے ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کے دفاعی معاملات پر تبصرہ کرتے ہوئے خواجہ آصف نے نہ صرف علاقائی حالات کو مدنظر رکھا بلکہ پاکستان کی توازن پر مبنی عسکری سوچ کو بھی اجاگر کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں