خضدار اسکول بس حادثہ: والدین کی چیخیں، بچوں کی لاشیں اور ٹوٹی امیدیں

خضدار میں معصومیت لہو لہو — اے پی ایس اسکول بس پر دہشتگرد حملہ، 5 بچے شہید، قوم سوگوار۔
بلوچستان کے ضلع خضدار میں پیش آنے والا المناک اسکول بس حادثہ کئی خاندانوں کے لیے قیامت بن کر ٹوٹا۔ وہ صبح جو خوشی خوشی بچوں کو اسکول بھیجنے سے شروع ہوئی، چند گھنٹوں بعد لاشیں اٹھانے، چیخ و پکار اور صدمے میں بدل گئی۔
عینی شاہدین کے مطابق، حادثے کے فوراً بعد جو منظر سامنے آیا، وہ ناقابلِ بیان اور دل خراش تھا۔ ایک والد جنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے تمام بچے کھو دیے، سکتے کی حالت میں بس کے ملبے کے پاس کھڑے تھے، ان کی چیخیں ہر سننے والے کے دل کو چیر رہی تھیں۔
ایک مقامی شخص، جو سب سے پہلے جائے حادثہ پر پہنچا، نے بتایا:
> “بچوں کی ٹانگیں چاک ہو چکی تھیں، آنتیں جسم سے باہر لٹکی ہوئی تھیں۔ کچھ بچوں کی ٹانگیں کچلی ہوئی تھیں، کچھ کے سر زخمی تھے۔ کچھ تو حرکت بھی نہیں کر رہے تھے، جیسے ایک ہی لمحے میں زندگی چھن گئی ہو۔”
#### ایک لمحے کی غفلت، کئی زندگیاں برباد
ابتدائی اطلاعات کے مطابق، بس کی بریک فیل ہونے یا تیز رفتاری کی وجہ سے ڈرائیور گاڑی پر قابو نہ رکھ سکا، اور بس گہری کھائی میں جا گری۔ حادثے میں درجنوں بچوں کی جانیں چلی گئیں، جبکہ کئی شدید زخمی ہیں جنہیں فوری طور پر قریبی اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔
#### ریاستی ردِعمل
وزیراعظم، وزیراعلیٰ بلوچستان اور دیگر حکام نے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اور تحقیقات کے احکامات دیے گئے ہیں۔ لیکن مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ صرف رسمی بیانات ہیں؛ عملی اقدامات نہ ہونے کے باعث ایسے حادثے بار بار ہو رہے ہیں۔
#### بنیادی سہولیات کا فقدان
یہ سانحہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں بنیادی ٹرانسپورٹ، اسکول بسوں کے حفاظتی اقدامات، اور ہنگامی طبی سہولیات کے فقدان کی ایک دردناک یاد دہانی ہے۔ اگر بروقت ایمبولینسیں، ریسکیو ٹیمیں، اور بہتر سڑکیں موجود ہوتیں تو شاید کچھ جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
: کچھ سوال، جن کے جواب اب بھی باقی ہیں**
* کیا یہ بس مناسب معائنہ کے بغیر چلائی جا رہی تھی؟
* کیا بچوں کی زندگیاں صرف ایک حادثاتی خبر بن کر رہ جائیں گی؟
* اور سب سے اہم، کیا متاثرہ والدین کو کبھی انصاف اور سہارا ملے گا؟
یہ صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ ریاستی غفلت، ناقص نظام اور انسانی المیے کی مکمل تصویر ہے، جسے الفاظ میں سمیٹنا مشکل ہے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ صرف دعاؤں اور مذمتوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کیے جائیں تاکہ آئندہ کسی ماں کو اپنے بچے کے ٹکڑے نہ اٹھانے پڑیں۔