مغوی بچے مصور خان کاکڑ کی ہلاکت کی تصدیق.

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کمسن طالب علم مصور خان کاکڑ کا نام گزشتہ سال نومبر سے پاکستان بھر کے دلوں میں گونج رہا تھا۔ نومبر کے وسط میں سکول سے گھر جاتے ہوئے اغوا ہونے والا یہ بچہ، نہ صرف اپنے گھر والوں کے لیے بلکہ پورے علاقے کے لیے امید کی کرن تھا۔ مصور خان کاکڑ، جو کوئٹہ کے معروف تاجر راز محمد کاکڑ کے بیٹے تھے، ایک نجی سکول میں تیسری جماعت کے طالب علم تھے اور ساتھ ہی قرآن پاک بھی حفظ کر رہے تھے۔

اغوا کے بعد، والدین اور مقامی کمیونٹی نے طاقتور آواز اٹھائی، جس پر حکومت بلوچستان نے سخت کارروائی کا آغاز کیا۔ تاہم، افسوسناک طور پر وہ دعائیں اور کوششیں مصور کو بازیاب نہیں کر سکیں۔ کوئٹہ پولیس اور سی ٹی ڈی نے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن کیا جس میں ہزاروں گھروں کی تلاشی، سیکڑوں سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ چیک کرنا، اغوا میں استعمال ہونے والی گاڑی کا قبضہ اور مختلف جگہوں پر سرچ آپریشن شامل تھے۔

تحقیقات سے پتہ چلا کہ کالعدم شدت پسند تنظیم داعش اس کیس میں ملوث ہے، اور اغوا کاروں نے ایران اور افغانستان سے فون کالز کے ذریعے رابطے کیے۔ 25 اور 26 اپریل کو کوئٹہ بائی پاس سے دشت منتقل کیے جانے کے دوران ایک سرچ آپریشن میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکہ خیز مواد سے دھماکے سے اڑا لیا۔ اس کے بعد مصور کو اسپلنجی کے علاقے میں منتقل کر کے فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، دو گولیاں مصور کو لگیں جن میں سے ایک سر پر لگی اور اسی گولی نے ان کی جان لے لی۔ یہ خبر سن کر نہ صرف ان کے اہل خانہ بلکہ پورے بلوچستان میں غم کی لہر دوڑ گئی۔

یہ واقعہ نہ صرف ایک کمسن بچے کی جان کے ضیاع کی کہانی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ ایک ملک کی حفاظت کے لیے سنجیدہ انتباہ بھی ہے۔ ایسے واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ دہشتگردی اور عدم تحفظ کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ معصوم جانوں کو محفوظ رکھا جا سکے اور کسی اور خاندان کو یہ غم نہ سہنا پڑے۔ حکومت بلوچستان نے اس کیس میں ملوث تمام ملزمان کی گرفتاری اور سزا کے لیے عزم کا اظہار کیا ہے، تاہم یہ سوال آج بھی باقی ہے کہ اس ملک میں بچوں کی حفاظت کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟

مصور خان کاکڑ کی کہانی ہمیں ایک بار پھر یاد دلاتی ہے کہ معاشرتی سلامتی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، اور ہمارے ننھے پھولوں کو محفوظ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں