“زبان نہیں صرف ذریعہ، شناخت کی پہچان ہے — پنجاب اسمبلی میں مادری زبانوں کو لازمی مضمون بنانے کی تحریک!”

پنجاب اسمبلی میں ایک اہم تعلیمی اور ثقافتی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے جہاں مادری زبانوں کو اسکولوں میں لازمی مضمون قرار دینے کا بل پیش کیا گیا ہے۔ اس بل کا مقصد صرف زبان کی تعلیم دینا نہیں، بلکہ ثقافت، تہذیب اور مقامی شناخت کو فروغ دینا ہے — ایک ایسا قدم جس کا طویل عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔

📚 بل کی تفصیلات:
اس نئے قانون کے مطابق پنجاب کے تعلیمی اداروں میں طلبا کو اپنی مادری زبان (پنجابی، سرائیکی، پوٹھوہاری، ہندکو، یا دیگر مقامی زبانیں) سیکھنا لازمی ہوگا۔ یہ مضمون ابتدائی جماعتوں سے متعارف کروایا جائے گا تاکہ بچے چھوٹی عمر سے ہی اپنی جڑوں سے جڑے رہیں۔

🗣️ کیوں ہے یہ قدم اہم؟
پاکستان میں کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، لیکن اردو اور انگریزی کے غلبے کی وجہ سے مادری زبانیں پیچھے رہ گئی ہیں۔

بچے اسکول میں ایسی زبان سیکھتے ہیں جو ان کی گھریلو زبان نہیں ہوتی، اس سے تعلیم میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے زیادہ سمجھ داری، تخلیقی صلاحیت اور بہتر اظہارِ خیال کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

🏛️ سیاسی و سماجی ردعمل:
کچھ ارکان اسمبلی نے اس بل کی مکمل حمایت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ قدم “ثقافتی بیداری” کی طرف لے جائے گا۔ جبکہ کچھ نے سوال اٹھایا ہے کہ:

کیا تمام اسکولوں میں ہر مادری زبان کے لیے اساتذہ موجود ہوں گے؟

کیا نصاب اور کتب کی تیاری کے لیے درکار وسائل دستیاب ہیں؟

🌍 عالمی تناظر:
دنیا کے کئی ممالک — جیسے فن لینڈ، سویڈن، اور کینیڈا — میں بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے تاکہ وہ بہتر سیکھ سکیں۔ یونیسکو اور دیگر تعلیمی ادارے بھی مادری زبان میں تعلیم کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔

👨‍👩‍👧 والدین اور طلبا کا ردعمل:
بہت سے والدین نے اس بل کو حوصلہ افزا قدم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے اپنی زبان بول تو سکتے ہیں، لیکن پڑھ اور لکھ نہیں سکتے، جس سے وہ اپنی ہی تاریخ، شاعری اور ثقافت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے تو یہ پنجاب میں تعلیم اور ثقافت کا ایک نیا باب کھولے گا، جہاں ہر بچہ اپنی زبان، پہچان اور جڑوں سے جُڑا محسوس کرے گا۔ یہ صرف زبان کا نہیں، شناخت اور خود اعتمادی کا مسئلہ ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں