گزشتہ رات کافی مشکل تھی ، رات میں 5 بار پناہ گا ہ میں جانا پڑا، امریکی سفیر کی ایکس پر پوسٹ

🌙 *”جب رات کی تاریکی گولوں کی روشنی سے چمکنے لگے، تو سفارتکار بھی محفوظ نہیں رہتے۔گزشتہ رات خطے کی صورتحال اس قدر کشیدہ رہی کہ **امریکی سفیر کو بھی متعدد بار پناہ گاہ (shelter) میں جانا پڑا**۔ ان کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر کی گئی پوسٹ نے اس بات کی واضح گواہی دی کہ *میدانِ جنگ صرف فوجی نہیں، سفارتکار بھی بن گئے ہیں۔*
“گزشتہ رات کافی مشکل تھی، رات میں 5 بار پناہ گاہ میں جانا پڑا” — یہ سطر محض ذاتی تجربہ نہیں، بلکہ ایک **بین السطور پیغام** ہے:
* سفارت کاروں کے لیے صورتحال انتہائی خطرناک ہو چکی ہے۔
* امریکہ اپنی موجودگی کے باوجود حملوں سے محفوظ نہیں۔
* یہ بیان عالمی برادری کے لیے *خطرے کی گھنٹی* بھی ہو سکتا ہے۔
#### **2. پناہ گاہ کا استعمال — معمول یا غیر معمولی؟**
کسی سفارتکار کا بار بار پناہ گاہ میں جانا ظاہر کرتا ہے کہ **راکٹ یا ڈرون حملوں کا خطرہ حقیقی اور قریبی تھا۔** عام طور پر ایسی تنصیبات (سفارت خانے) مضبوط حفاظتی انتظامات کے تحت ہوتی ہیں، اور ان کے رہائشی جلدی پناہ گاہ میں نہیں جاتے، جب تک کہ خطرہ غیر معمولی نہ ہو۔
#### **3. خطے میں جنگ کا پھیلاؤ:**
یہ صورتحال اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ **تنازع اب مخصوص محاذوں تک محدود نہیں رہا۔** جب سفارت خانے نشانہ بننے لگیں یا خطرے کی زد میں آئیں، تو اس کا مطلب ہے کہ جنگ سفارتی سرحدوں کو بھی روندنے لگی ہے۔
#### **4. عالمی ردِعمل متوقع؟**
امریکی سفیر کی یہ پوسٹ شاید عوامی ہمدردی کے ساتھ ساتھ **عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا بھی ایک ذریعہ ہو** تاکہ امریکہ کسی ممکنہ فوجی یا سفارتی اقدام کا جواز پیش کر سکے۔
جب ایک طاقتور ملک کا سفیر رات بھر پانچ مرتبہ پناہ گاہ میں چھپنے پر مجبور ہو جائے، تو یہ ثابت کرتا ہے کہ *یہ جنگ اب صرف سرحدی نہیں رہی، بلکہ دلوں اور دارالحکومتوں تک جا پہنچی ہے۔*