بھارت میں اقلیتوں کا جینا دشوار — مودی حکومت پر سنگین الزامات.

نریندر مودی کے دورِ حکومت میں بھارت میں اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں کے لیے حالات مسلسل بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ صرف عبادات، لباس یا زبان ہی نہیں، اب تو سانس لینے جیسی بنیادی آزادی بھی چھنتی محسوس ہو رہی ہے۔
🔥 حالیہ واقعات:
مسلمانوں کے خلاف تشدد میں اضافہ:
یوپی، ہریانہ، مہاراشٹرا، اور کرناٹک جیسے ریاستوں میں مساجد، دکانوں اور گھروں پر حملے معمول بن چکے ہیں۔
فرقہ وارانہ جھگڑوں کے بعد اکثریتی طبقے کے ملزمان کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔
عیسائیوں پر حملے:
چرچ نذرِ آتش کیے گئے، پادریوں کو زد و کوب کیا گیا، اور دعائیہ اجتماعات پر دھاوا بولا گیا۔
اینٹی-کنورژن (مذہب تبدیلی) قوانین کا استعمال کر کے اقلیتوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
عدلیہ و پولیس کی خاموشی:
متاثرین کو انصاف کی بجائے الٹا مقدمات اور حراست کا سامنا۔
پولیس کا کردار بعض کیسز میں متعصب اور جانبدار نظر آیا۔
📉 مودی حکومت کی پالیسیاں:
شہریت ترمیمی قانون (CAA) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (NRC) جیسے اقدامات نے مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک بنا دیا۔
اقلیتی تعلیمی اداروں کی خودمختاری پر قدغن لگائی گئی، اور حج سبسڈی ختم کر دی گئی۔
میڈیا اور فلموں کے ذریعے اقلیتوں کی کردار کشی ایک معمول بنتی جا رہی ہے۔
🗣 عالمی سطح پر ردعمل:
امریکہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ سمیت کئی عالمی ادارے بھارت میں مذہبی آزادی کی بگڑتی صورتِ حال پر تشویش ظاہر کر چکے ہیں۔
USCIRF (امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی) نے مسلسل بھارت کو “خصوصی نگرانی والے ممالک” کی فہرست میں شامل رکھنے کی سفارش کی ہے۔
🧭 اقلیتوں کا مستقبل؟
اقلیتیں نہ صرف جان و مال کے خوف میں مبتلا ہیں، بلکہ انہیں مکمل سماجی و معاشی بائیکاٹ کا سامنا ہے۔
بھارت کا سیکولر آئین کاغذی دعویٰ بنتا جا رہا ہے — عملی طور پر اکثریتی انتہاپسندی کو کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔
مودی سرکار کی پالیسیوں نے بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت سے ایک انتہاپسند ریاست میں بدلنے کے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
اگر یہی روش جاری رہی، تو بھارت کے اندر سماجی تقسیم، خانہ جنگی جیسے حالات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے — جس کا خمیازہ نہ صرف اقلیتیں، بلکہ پورا ملک بھگتے گا۔
بھارت میں تعلیمی بحران — کئی ریاستوں میں اسکول بند، مودی حکومت پر سخت تنقید.