“اندھیرے کے بعد اُجالا؟ اپریل میں مہنگائی بڑھے گی، مگر جلد استحکام آئے گا، گورنر اسٹیٹ بینک”

پاکستانی عوام مہنگائی کی بھٹی میں کافی عرصے سے جھلس رہے ہیں۔ ایک کے بعد ایک بنیادی ضرورت کی چیز مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ آٹا، چینی، سبزیاں، پیٹرول، بجلی—کسی بھی چیز کی قیمت ایک جگہ ٹھہرتی نظر نہیں آتی۔ ان ہی حالات کے بیچ گورنر اسٹیٹ بینک نے ایک بیان دیا ہے کہ اپریل میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، مگر اس کے بعد استحکام آنا شروع ہو جائے گا۔
یہ بیان سننے میں تسلی دیتا ہے، جیسے کوئی تھپکی دے کر کہہ رہا ہو کہ تھوڑا سا اور صبر کر لو، سب بہتر ہو جائے گا۔ مگر وہ شخص جو روز بازار سے خالی ہاتھ واپس آتا ہے، یا وہ ماں جو بچوں کے لیے ہر روز چولہے پر کچھ نیا جادو کرنے کی کوشش کرتی ہے، ان کے لیے ایک اور مہینہ کافی طویل اور تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔
اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ معاشی پالیسیاں اب اپنے اثر دکھانے والی ہیں۔ حکومت اور اسٹیٹ بینک کو امید ہے کہ جو سخت فیصلے کیے گئے، وہ اب ثمر لائیں گے اور مہنگائی کی لہر اپنی انتہا پر پہنچ کر آہستہ آہستہ نیچے آنا شروع ہو جائے گی۔ مگر عوام کے ذہن میں یہ سوال مسلسل گونج رہا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہوگا؟ اور اگر ہوگا بھی تو کیا اس وقت تک ان کے حالات سنبھلنے کے قابل رہیں گے؟
گزشتہ برسوں میں ہم نے بارہا ایسا سنا ہے کہ “بس اب تھوڑا وقت باقی ہے، بہتری آ رہی ہے” مگر ہر بار وہ بہتری یا تو بہت سست آئی یا پھر آئی ہی نہیں۔ زمینی حقیقت یہی ہے کہ جب تک ریلیف عام آدمی کی جیب میں محسوس نہ ہو، ہر پالیسی اور ہر بیان محض الفاظ لگتا ہے۔
بہرحال، اس بار امید کی جا رہی ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے ہونے والے معاہدے، روپے کی قدر میں استحکام، اور درآمدی کنٹرول جیسے اقدامات واقعی اثر دکھائیں گے۔ مگر ان سب باتوں کے ساتھ اگر حکومت نے گورننس اور کرپشن پر قابو نہ پایا، تو یہ امیدیں پھر ایک بار مایوسی میں بدل سکتی ہیں۔
اس وقت عوام کو صرف بیان نہیں، عمل چاہیے۔ ایک ایسا عمل جو صرف بڑے شہروں کے تجارتی مراکز یا اسٹاک مارکیٹ کے چارٹ پر نہ دکھائی دے، بلکہ اس مزدور کے ہاتھ میں بھی محسوس ہو جو دن بھر محنت کر کے بھی آدھا سودا نہیں لا پاتا۔ استحکام صرف معیشت کی رپورٹس میں نہیں، عوام کے چولہے میں نظر آنا چاہیے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کا بیان ایک خوش آئند اشارہ ضرور ہو سکتا ہے، مگر اب عوام کے دل میں اُمید صرف اس وقت پیدا ہو گی جب وہ مہنگائی کی شدت میں کمی کو اپنی زندگی میں حقیقی طور پر محسوس کرے گی۔ جب راشن کی تھیلی ہلکی نہ لگے، جب بچوں کی فرمائشیں بوجھ نہ بنیں، اور جب روزمرہ کی چیزیں خریدنا اعزاز نہیں، معمول بن جائے۔