لابنگ کی جنگ: مودی پر تنقید مگر پاکستان کا خرچ بھارت سے بھی دگنا — اصل کہانی کیا ہے؟

مودی کا امریکی خواب: ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے نئی لابنگ فرم کی خدمات، ہر ماہ 2.75 لاکھ ڈالر کی لاگت — اشوک سوائیں کی کڑی تنقید
مودی پر تنقید تو خوب ہو رہی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان، بھارت سے زیادہ — تقریباً ماہانہ 6 لاکھ ڈالر — واشنگٹن میں لابنگ پر خرچ کر رہا ہے!
سیاق و سباق:
حال ہی میں بھارتی تجزیہ کار اشوک سوائیں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا، یہ کہتے ہوئے کہ مودی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے امریکہ میں ایک نئی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی ہیں، جس پر ماہانہ 2.75 لاکھ ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں سوال کیا:
“مودی کی جپھیاں اور جے شنکر کی ‘لیزر آنکھیں’ کہاں گئیں؟”
تاہم، کاؤنٹر انٹیلیجنس گلوبل کی تازہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان بھی امریکہ میں اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ — ماہانہ 6 لاکھ ڈالر — لابنگ پر خرچ کر رہا ہے۔
لابنگ کیا ہے اور کیوں کی جاتی ہے؟
لابنگ ایک قانونی عمل ہے جس کے ذریعے ممالک، کمپنیاں یا تنظیمیں امریکی حکومت، کانگریس، اور پالیسی ساز اداروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس کا مقصد ہوتا ہے:
سفارتی تعلقات مضبوط کرنا
دفاعی و مالی امداد حاصل کرنا
عالمی بیانیے کو اپنے حق میں کرنا
پالیسی ساز اداروں سے نرم گوشہ لینا
لہٰذا بھارت ہو یا پاکستان — دونوں ممالک امریکہ جیسے سپر پاور میں اثر و رسوخ کے لیے لابنگ پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔
پاکستان کی لابنگ سرگرمیاں:
رپورٹ کے مطابق:
پاکستان ماہانہ تقریباً 6 لاکھ امریکی ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
یہ رقم مختلف لابنگ فرموں، قانونی مشیروں، میڈیا ایجنسیوں اور کانگریس سے تعلق رکھنے والے نیٹ ورکس پر صرف کی جاتی ہے۔
2023 اور 2024 میں یہ سرگرمیاں افغانستان سے امریکی انخلا، IMF معاہدوں، FATF کی نگرانی، اور کشمیر/بھارت مخالف بیانیے کے فروغ کے لیے بڑھائی گئیں۔
بھارت کی لابنگ حکمتِ عملی:
بھارت عمومی طور پر بہت مخصوص معاملات پر لابنگ کرتا ہے، جیسے کہ H1-B ویزہ، تجارت، چین مخالف اسٹریٹجی، اور دفاعی معاہدے۔
مودی حکومت کا حالیہ ٹرمپ پر فوکس زیادہ اسٹریٹجک ہے، کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو بھارت-امریکہ تعلقات کو نیا رخ مل سکتا ہے۔
تجزیہ: کون صحیح، کون غلط؟
اشوک سوائیں کی مودی پر تنقید ایک سیاسی و نظریاتی تناظر میں ہے، جس میں وہ بھارتی حکومت کی خارجہ پالیسی کو طنز کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
لیکن جب اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھیں، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ:
پاکستان، بھارت سے کہیں زیادہ خرچ کر رہا ہے — پھر بھی اشوک سوائیں جیسے تجزیہ کاروں یا مغربی میڈیا میں پاکستانی لابنگ پر اتنی تنقید دیکھنے کو نہیں ملتی۔
کیا یہ دوہرا معیار ہے؟
سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کی لابنگ سرگرمیوں کو نظر انداز کر کے صرف مودی پر تنقید کرنا ایک سیاسی یا نظریاتی ایجنڈا کا حصہ ہے؟
کیا یہ بات بھی اتنی ہی زیرِ بحث آنی چاہیے کہ ایک معاشی بحران سے دوچار ملک 6 لاکھ ڈالر ماہانہ صرف لابنگ پر خرچ کر رہا ہے؟
مودی پر تنقید ہو یا پاکستان کی خاموش لابنگ مہم — اصل نکتہ یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں اثر و رسوخ پیسے، تعلقات، اور میڈیا حکمت عملی سے چلتے ہیں۔
خواہ بھارت ہو یا پاکستان، دونوں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی اسے چھپا رہا ہے، اور کوئی کھلے عام کر رہا ہے۔