تحریکِ انصاف کی قید قیادت کا پیغام: نظریاتی وابستگی برقرار، مذاکرات کیلئے دروازہ کھلا

کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی رہنماؤں — شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ — نے ایک پریس ریلیز (خط) کے ذریعے اپنی تازہ حکمت عملی کا اشارہ دیا ہے۔ اس خط پر عوام، میڈیا اور پارٹی کارکنان میں کئی سوالات جنم لے چکے تھے، تاہم اب جیل سے براہِ راست موصول ہونے والے تازہ موقف نے کچھ وضاحت فراہم کر دی ہے۔
خط کا پس منظر اور وضاحت:
رہنماؤں نے واضح کیا کہ:
“یہ خط ہم نے باہمی مشاورت اور مکمل ہوش و حواس میں تیار کیا۔ ہم عمران خان کے نظریے، مؤقف اور بیانیے کے ساتھ آخری سانس تک کھڑے ہیں۔”
ساتھ ہی اُنہوں نے ایک حقیقت پسندانہ رخ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ:
“جنگوں میں بھی مذاکرات ہوتے ہیں۔ ہماری اولین ترجیح ہمارے وہ 21 ہزار سیاسی ورکرز ہیں جو اس وقت انتقامی کارروائیوں کی زد میں ہیں۔”
سیاسی مفہوم:
یہ بیان ایک واضح اشارہ ہے کہ پی ٹی آئی قیادت اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر، موجودہ سیاسی جمود کو توڑنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہتی ہے۔ ان کا مقصد نظریاتی پسپائی نہیں بلکہ سیاسی قیدیوں کی رہائی اور پارٹی ورکرز کے تحفظ کو ممکن بنانا ہے۔
خط پر اٹھنے والے سوالات:
خط کے بعد سوشل میڈیا پر کئی سوالات اٹھائے گئے:
کیا پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی طرف بڑھ رہی ہے؟
کیا یہ خط عمران خان کی مرضی سے لکھا گیا؟
کیا اس کے پیچھے دباؤ تھا یا یہ حکمت عملی ہے؟
لیکن جیل سے آنے والے تازہ موقف نے واضح کر دیا کہ:
“یہ خودمختار فیصلہ ہے، ہم اپنے لیڈر کے ساتھ بھی کھڑے ہیں اور اپنے ورکرز کے لیے بھی فکر مند ہیں۔”
یہ بیان ایک متوازن سیاسی حکمت عملی کی عکاسی کرتا ہے — نہ مکمل جارحیت، نہ مکمل مفاہمت۔ یہ قیادت اپنی نظریاتی وابستگی برقرار رکھتے ہوئے ایک سیاسی حل کی طرف قدم بڑھا رہی ہے، تاکہ کارکنان کو ریلیف ملے، پارٹی کو منظم رکھا جا سکے، اور مستقبل کی سیاست میں مؤثر واپسی کی راہ ہموار ہو۔
تحریک انصاف کی اسیر قیادت کا یہ خط دراصل ایک سیاسی پیغام ہے: ہم نہ تھکے ہیں، نہ جھکے ہیں، لیکن آگے بڑھنے کے لیے دروازہ کھلا رکھتے ہیں۔ اگر اس پیغام کو درست تناظر میں سمجھا گیا تو یہ پاکستان کی سیاست میں جاری تعطل کو توڑنے کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔