“مودی عالمی میز پر اکیلے رہ گئے: جی–7 سے بلا کال بھی بھاری پڑ گئی”

چھ سال کے طویل عرصے میں پہلی بار بھارت کے وزیراعظم کو جی–7 سربراہی اجلاس میں مدعو نہ کیے جانا نہ صرف مودی کے لیے اعتبار کا زوال ہے بلکہ ایک علامت بھی ہے اس تنہائی کی جو بھارتی قیادت کو عالمی فرش پر گھیرے ہوئے ہے۔ پاکستان سے حالیہ شکست کے جھٹکے ابھی بھی برقرار ہیں، اور ان کے سیاسی اثرات کا دائرہ صرف کھیلوں تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی طاقتوں کے دلوں میں بھی ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے۔

عالمی تنہائی کا پس منظر
۱. جی–7 اجلاس کی حیثیت:
جی–7 ممالک (امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، جاپان اور کینیڈا) کی سربراہی اجلاس میں شامل ہونا بین الاقوامی سطح پر اعتماد اور قبولیت کی علامت تصور ہوتا ہے۔ ماضی میں بھارت کو دو مرتبہ جی–7 کے اجلاسوں میں مدعو کیا گیا، خاص طور پر جب دنیا بھر میں کسی بحران پر تبادلہ خیال کرنا ہوتا تھا یا عالمی اقتصادی مسائل پر رائے لے کر مشترکہ لائحہ عمل بنایا جاتا تھا۔ مگر جون ۲۰۲۵ کے اجلاس کے لیے مودی کے نام کو نہ شامل کرنا ایک واضح پیغام ہے کہ اب بھارت کو پرانے جی–7 حلقوں میں وہ مقام حاصل نہیں رہا جو گذشتہ برسوں میں تھا۔

۲. پاکستان کے ساتھ حالیہ شکستوں کے اثرات:
کئی شعبوں میں پاکستان نے حالیہ برسوں میں اپنے سیاسی اور سفارتی اثر و رسوخ کو بڑھایا ہے۔ خاص طور پر جنوبی ایشیائی خطے میں توازنِ طاقت کے اعتبار سے پاکستان کی اندرونی سلامتی کے ٹھوس اقدامات اور عسکری استحکام نے عالمی طاقتوں کے ذہن میں سوال پیدا کیا کہ بھارت کی خارجہ پالیسی اور علاقائی حکمتِ عملی مصدقہ طریقے سے کام کر رہی ہے یا نہیں۔

سفارتی محاذ: پاکستان نے اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)، سی پیک کے ذریعے چین کے تعاون سے چلائے جانے والے منصوبوں اور علاقائی امن مذاکرات میں فعال کردار ادا کیا، جس نے عالمی برادری میں اسلام آباد کی ساکھ کو مضبوط کیا۔

عسکری توازن: خطے میں پاکستان کی فوجی تیاریوں اور دفاعی گہرائی نے بھارت کو اپنی داخلہ سلامتی کے اقدامات پر ازسرِنو نظرِثانی کرنے پر مجبور کیا۔ اس صورتحال کا سیاسی پہلو یہ بھی ہے کہ عالمی طاقتیں اب بھارت کی حکمتِ عملی سے کم مطمئن دکھائی دیتی ہیں۔

جی–7 مدعو نہ کیے جانے کی وجوہات
۱. اقتصادی اور تجارتی تعلقات کی کمزوری:
بھارت نے گذشتہ چند برسوں میں اپنے اقتصادی پیکج میں کچھ مسائل کا سامنا کیا۔ مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافے نے حکومت کی اندرونی ساکھ کو کمزور کیا، اور عالمی تجارتی شراکت داروں نے بھارت کے اقتصادی استحکام پر سوال اٹھائے۔ خاص طور پر امریکہ اور یورپی بلاک نے متبادل منڈیوں کی جانب توجہ مرکوز کر لی، جس سے بھارت کے راستے پر چلنے والی معیشت پر شکوک و شبہات بڑھ گئے۔

۲. سفارتی کشیدگی اور انسانی حقوق کی تشویش:
انسانی حقوق، اقلیتوں کے تحفظ اور بیانِ رائے کی آزادی جیسے موضوعات پر بھارت پر تنقید ہوئی۔ کچھ یورپی ممالک نے مودی دور میں اٹھنے والے ہندوؤں اور مسلم اقلیتوں کے تنازعات کو بین الاقوامی فورمز پر اٹھایا۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی بھارت کی پالیسیوں پر سوالات اٹھائے، جس کی وجہ سے جی–7 کے بعض اراکین نے مودی کی موجودگی کو مناسب نہ سمجھا۔

۳. کرونا کے بعد کا نیا توازنِ طاقت:
کرونا وبا کے دوران عالمی صف بندی میں تبدیلیاں آئیں۔ چین اور روس نے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا جبکہ بھارت کی “آزاد اور کھلے آسمان” کی ڈپلومیسی کے وعدے ابھی تک عملی رنگ اختیار کرنے میں مکمل کامیاب نہ ہو پائے۔ اس دباؤ کے تحت جی–7 نے فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ بھارت کے وزیراعظم کو “سرکاری مدعو مہمان” کے طور پر شامل نہیں کیا جائے گا تاکہ اجلاس کی بحث کو صرف سات بڑی اقتصادی طاقتوں کے تحت ہی مینج کیا جا سکے۔

پاکستان کی حکمتِ عملی اور بھارت کا موازنہ
سپر پاور بلاکس میں شمولیت: پاکستان نے خطے میں روس اور چین کے ساتھ فعال تعاون سے خود کو ایسے بلاکس میں شامل کرنے کی کوشش کی جنہیں مغربی طاقتیں کم خیال میں رکھتی تھیں۔ اس نے پاک-چین معاشی راہداری (سی پیک) پر زور دیا اور اس کے دوران کئی علاقائی ملکوں نے پاکستان کو اقتصادی رُوٹ میپ میں شریک دیکھا۔

بھارت کا جارحانہ روّیہ: مودی حکومت نے بعض اندرونی منصوبوں میں تیز رفتاری دکھائی، خاص طور پر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا فیصلہ۔ اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی برادری کے اندر تشویش بڑھ گئی۔ کئی ممالک نے پرائیویسی اور انسانی حقوق کے شعبے میں بھارت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

کھیلوں میں پاکستان کا عروج: کرکٹ جیسے کھیلوں میں حالیہ چند مقابلوں میں پاکستان نے بھارت کو پہلے ہرا کر اپنا عروج ظاہر کیا۔ یہ ایمہ نہیں کہ کھیل ہی سب کچھ ہیں، مگر اس نفسیاتی میدان میں کامیابی بھی اس تاثر کی بنیاد بنی کہ “بھارت تمام محاذوں پر مستحکم نہیں”۔

عالمی ردعمل اور بھارت کے لیے اب کیا؟
۱. خطے میں توازنِ طاقت:
جی–7 اجلاس میں مدعو نہ کیے جانے کے بعد بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرِثانی کرنا ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پاکستان، چین اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو نئی سرحدوں پر سوچے گا، تاکہ خطے میں اپنا کردار ایک “توازن ساز” کے طور پر ظاہر ہو سکے نہ کہ جارح یا علاقائی طاقت کے طور پر۔

۲. اندرونی اصلاحات اور اقتصادی پیش رفت:
مودی حکومت کو مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے مسائل پر قابو پانا ہو گا۔ صنعت کاروں اور تاجروں کے ساتھ بہتر رابطے، ڈیزائن میں تبدیلیاں اور انفراسٹرکچر کی جلد تکمیل جیسی اصلاحی حکمتِ عملیوں سے جی–7 کے ممالک کو اعتماد کی بنیاد مل سکتی ہے کہ بھارت اب عالمی تجارت میں زیادہ مستحکم اور قابل اعتماد ہے۔

۳. سفارتی پلوں کی تعمیر:
انسانی حقوق اور مذہبی ہم آہنگی کے معاملات پر بھارتی حکومت کو سفارتی اور شناختی تاثر میں بہتری لانی ہوگی۔ اس کے لیے وہ بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ کھل کر تعاون کرے، جہاں عالمی نگرانی کے ذریعے بھارتی اقدامات بین الاقوامی معیار پر پرکھے جائیں۔ اس طرح مغربی طاقتوں کے شکوک دور ہو سکتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں