مرٹل کاربن – دو جسموں میں قید ایک روح ایک ایسی عورت کی کہانی جس کا جسم دو تھا، مگر روح ایک

مرٹل کاربن ایک ایسا نام ہے جو انسانی جسم کی پیچیدگی، قدرت کی صناعی اور انسان کی ہمت کی ایک نادر مثال بن چکی ہیں۔ 1868 میں ریاست ٹینیسی، امریکہ میں پیدا ہونے والی مرٹل پیدائشی طور پر ایک نایاب جسمانی حالت میں دنیا میں آئیں، جسے طبی زبان میں “ڈپگیس ٹوپیگس” کہا جاتا ہے۔ اس مرض میں انسان کا نچلا دھڑ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ مرٹل کے چار ٹانگیں تھیں، دو مکمل حوض (pelvises) اور دو تولیدی نظام۔ ان کی یہ انوکھی جسمانی ساخت نہ صرف میڈیکل دنیا کے لیے حیرت کا باعث بنی بلکہ ان کی ذاتی زندگی بھی کئی حوالوں سے ایک معجزہ کہلائی۔
کم عمری میں ہی مرٹل نے اپنی منفرد حالت کو کمزوری سمجھنے کے بجائے طاقت بنایا۔ 13 سال کی عمر میں وہ “چار ٹانگوں والی لڑکی” کے لقب سے سرکس میں شامل ہو گئیں، جہاں ہزاروں افراد ان کی ایک جھلک دیکھنے آتے۔ وہ نہ صرف ایک پرکشش شخصیت کی مالک تھیں بلکہ ان کی گفتگو، خوش مزاجی اور خود اعتمادی نے اُنہیں ایک مشہور پرفارمر بنا دیا۔ اس وقت کے سرکس اور فریک شوز میں ایسے افراد کو خصوصی اہمیت دی جاتی تھی جو جسمانی طور پر مختلف ہوں، اور مرٹل کی موجودگی وہاں ایک سنسنی سے کم نہ تھی۔
تاہم مرٹل کاربن کی کہانی کا سب سے دلچسپ اور ناقابلِ یقین پہلو ان کی شادی اور ماں بننے کا سفر ہے۔ انہوں نے جیمز کلنٹن بنیکر نامی شخص سے شادی کی اور عام گھریلو عورتوں کی طرح ایک ازدواجی زندگی گزارنے لگیں۔ ماہرین طب حیران تھے کہ کیا مرٹل اپنی حالت کے باوجود ماں بن سکتی ہیں؟ ان تمام سوالات کا جواب مرٹل نے خود اپنی زندگی سے دیا، جب وہ پانچ بچوں کی ماں بنیں۔ سائنسی تجزیے کے مطابق ان کے دونوں تولیدی نظام فعال تھے، اور وہ دونوں طرف سے حمل ٹھہرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ یہ امر اس وقت کے طبی اصولوں کے برعکس تھا، اور مرٹل کی زندگی نے بہت سے سائنسی نظریات کو چیلنج کیا۔
مرٹل کی زندگی نہ صرف ایک طبی کیس تھی، بلکہ ایک جذبہ تھی۔ انہوں نے اپنی انفرادیت کو کبھی بدقسمتی نہیں سمجھا بلکہ اُس پر فخر کیا۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کا جسم دوسروں سے مختلف ہے، مگر ان کی روح، ان کا حوصلہ، اور ان کی عورت ہونے کی پہچان سب سے زیادہ عام اور قابلِ احترام تھی۔ انہوں نے ثابت کیا کہ جسمانی کمی انسان کی قابلیت، محبت یا خوشی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔
1928 میں مرٹل کاربن کا انتقال ہو گیا، مگر وہ ایک ایسی داستان چھوڑ گئیں جو آج بھی سائنسدانوں، ڈاکٹروں اور عام انسانوں کے لیے حیرت اور متاثر کن سبق سے بھرپور ہے۔ ان کی زندگی یہ پیغام دیتی ہے کہ جو انسان خود کو قبول کر لے، وہ دنیا کے کسی بھی میدان میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ مرٹل کی کہانی ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ قدرت کی تخلیقات میں حیرت پوشیدہ ہے، اور انسانی جسم اپنی گہرائیوں میں ایسے راز رکھتا ہے جو آج تک مکمل طور پر نہیں کھلے۔
مرٹل کاربن کی یاد آج بھی عجائباتِ قدرت میں زندہ ہے۔ وہ ہمیں یہ درس دیتی ہیں کہ زندگی جیسے بھی ہو، اگر ہمت، خودداری اور حوصلہ ساتھ ہو تو کوئی کمی کمی نہیں رہتی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں