“نیتن یاہو کے ایران حملے کی دھمکیاں سیاسی شطرنج؛ اسرائیل اکیلا ایسا آپریشن نہیں کر سکتا!”

سیاسی حربہ یا حقیقی منصوبہ؟
اسرائیلی روزنامے ہآرٹز کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کی دھمکیاں دراصل داخلی اور بین الاقوامی سطح پر اشارہ بازی ہے، حقیقی فوجی تیاری نہیں۔ یہ بیانات زیادہ تر الیکشن مہم اور سلامتی کی ابھارتی تشویشات کے تناظر میں دئے گئے سیاسی اشارے ہیں۔

۲. فوجی صلاحیت کا فقدان
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اسرائیلی دفاعی فورسز کے پاس ایسی پیچیدہ اور دور رس کارروائی کرنے کے لیے مطلوبہ طیارے، ایندھن اور لاجسٹک سہولتیں اس وقت دستیاب نہیں، جب تک کہ امریکہ کی فضائی اور انٹیلی جنس سپورٹ شامل نہ ہو۔ یعنی اگرچہ بیانیہ سخت ہے، لیکن عملی میدانی قوت کمزور ہے۔

۳. امریکی معاونت کی ’کٹھ پتلی‘ ضرورت
ہآرٹز کے مطابق، ایران پر حملے کی صورت میں امریکہ کا پسِ پردہ کردار لازمی ہوگا—ایئر ریفولنگ، سیٹلائٹ انٹیلی جنس اور جوہری ہتھیاروں سے بچاؤ کی حکمت عملی میں واشنگٹن کی بھرپور شراکت درکار ہے۔ اکیلے اسرائیل کے لیے یہ اقدام پلان سے زیادہ سیاسی اشارے دیتا ہے۔

۴. بین الاقوامی پیغام رسانی
نیتن یاہو کی دھمکیاں یورپی شراکت داروں اور امریکی کانگریس میں سخت موقف اختیار کرنے کے لیے بھی بھیجی گئی، تاکہ ایران کی جوہری سرگرمیوں کے خلاف عالمی اتفاق رائے کو مضبوط کیا جا سکے۔ ہآرٹز مانتا ہے کہ یہ دھمکیاں سفارتی موقعوں کو بھاری کرنے اور ایران کو ڈیل مذاکرات پر لانے کے تحت دئے جاتے ہیں۔

۵. خطرات اور نتائج
اگرچہ زبانی سطح پر کشیدگی پیدا ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں اسرائیل کو براہِ راست بڑی فضائی کارروائی سے جوہری مراکز کو نشانہ بنانے کے شدید خطرات ہیں—ایندھن کی کمی، طویل بیس لائن مسلسل حملے کے اثرات اور علاقائی ردعمل۔ ہآرٹز مشورہ دیتا ہے کہ دونوں فریق’ ڈوفرینشیئٹڈ ریسپانس‘ اور سفارشی بات چیت پر توجہ دیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں