عالمی کشیدگی کی نئی حد: روس-یوکرین تنازع ایک ممکنہ عالمی بحران کے دہانے پر

یوکرین اور روس کے درمیان جاری تنازع اب شدت کی ایک نئی اور خطرناک سطح پر پہنچ چکا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ماسکو میں اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے، جس میں ممکنہ جوابی اقدامات اور اسٹریٹجک دفاعی تیاریوں پر غور کیا جا رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق روس کے اسٹریٹجک نیوکلیئر یونٹس کو “ہائی الرٹ” پر رکھا گیا ہے۔ اگرچہ اب تک کسی جوہری اقدام کی تصدیق نہیں ہوئی، تاہم ماہرین اسے ایک غیر معمولی عسکری اشارہ قرار دے رہے ہیں، جس کا مقصد روس کی مکمل دفاعی طاقت کا اظہار ہے۔
برطانوی اخبار The Guardian اور امریکی نیٹ ورک OSINTdefender نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روسی میزائل کمانڈ کو جزوی طور پر متحرک کر دیا گیا ہے، تاکہ کسی بھی حملے کی صورت میں فوری ردعمل ممکن ہو۔

صورتحال اُس وقت مزید سنگین ہو گئی، جب یوکرین نے “آپریشن اسپائیڈر ویب” کے تحت روس کے پانچ بڑے فوجی اڈوں پر ڈرون حملے کیے، جن میں 40 سے زائد جنگی طیارے تباہ ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ یہ حملے نہ صرف روسی فضائیہ کی قوت کو متاثر کرنے کے لیے کافی ہیں، بلکہ کریملن میں غصے اور انتقامی جذبات کو بھی ہوا دے چکے ہیں۔

اسی کشیدہ فضا میں، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خفیہ سفارتی کوششوں میں متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ NBC News اور Politico کے مطابق، ٹرمپ کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ چین، ترکی اور قطر کے ذریعے روسی حکام سے پسِ پردہ رابطے میں ہیں، تاکہ براہ راست جنگی تصادم کو روکا جا سکے۔

ایک اور چونکا دینے والی پیش رفت میں، Reuters اور AFP نے رپورٹ کیا ہے کہ کریملن کے قریبی دفاعی مشیروں نے تجویز دی ہے:
اگر یوکرینی حملوں میں برطانیہ کے Storm Shadow یا جرمنی کے Taurus میزائلوں کا استعمال ہوا ہو، تو روس اسے نیٹو کی براہِ راست مداخلت تصور کرے گا۔
اس صورت میں روسی ردعمل صرف یوکرین تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ فرانس یا برطانیہ جیسے “سہولت کار” ممالک کو بھی ہدف بنایا جا سکتا ہے — ایک ایسی صورتِ حال جو پوری دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کر سکتی ہے۔

دوسری جانب، چین اور ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مغربی طاقتوں کو بحران کا ذمے دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ “نیٹو کی توسیع اور مغربی مداخلت” ہی اس تنازع کی اصل وجہ ہے۔ چینی مندوب نے واضح کیا کہ وقت آ گیا ہے کہ عالمی طاقتیں امن کی راہ اپنائیں، نہ کہ تصادم کی۔

اس وقت عالمی توجہ اس ایک سوال پر مرکوز ہے:
کیا پیوٹن کا ہنگامی اجلاس محض دفاعی تیاریوں کا اعلان ہوگا، یا روس بھرپور جوابی کارروائی کا آغاز کرے گا؟

دنیا ایک نازک ترین موڑ پر کھڑی ہے، جہاں ایک معمولی غلطی یا فوجی غلط فہمی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔
اگلے چند گھنٹے یا دن عالمی تاریخ کے سب سے اہم اور فیصلہ کن لمحے ثابت ہو سکتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں