“طاقت کے مظاہرے کے جواب میں شمالی کوریا کی دھمکی — کیا خطہ ایک نئے بحران کی دہلیز پر ہے؟”

امریکہ اور جنوبی کوریا کی جانب سے مشترکہ فوجی مشقوں کا انعقاد کوئی نئی بات نہیں۔ یہ سالانہ معمول کا حصہ ہیں، جن کا مقصد دونوں اتحادیوں کے درمیان دفاعی تعاون کو مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ مگر ہر بار کی طرح، اس سال بھی یہ مشقیں شمالی کوریا کے لیے اشتعال انگیز قرار پائیں، اور اس بار ردِعمل ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ شدید اور خطرناک نظر آ رہا ہے۔

🔹 شمالی کوریا کا سخت مؤقف

شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کے مطابق، رہنما کم جونگ اُن نے ان فوجی مشقوں کو “امن دشمن” اور “جنگ کو دعوت دینے والا عمل” قرار دیا ہے۔
انہوں نے واضح الفاظ میں کہا:

“دشمن طاقتوں کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ دراصل جنگ چھیڑنے کی خواہش کا ثبوت ہے۔”

یہ بیان نہ صرف خطرناک ہے بلکہ عالمی برادری کے لیے ایک کھلا چیلنج بھی ہے۔

🔹 ایٹمی ہتھیاروں میں اضافے کا حکم

کم جونگ اُن نے ان مشقوں کے جواب میں اپنی ایٹمی طاقت بڑھانے کا اعلان کیا ہے، اور فوجی قیادت کو ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں اضافے کا حکم دیا ہے۔ اس فیصلے کا مطلب ہے کہ:

شمالی کوریا نئی ایٹمی تنصیبات یا ہتھیاروں پر کام شروع کر سکتا ہے۔

وہ بین البراعظمی میزائل تجربات (ICBMs) دوبارہ شروع کر سکتا ہے۔

ممکن ہے کہ بحری یا آبدوز سے فائر کیے جانے والے ایٹمی ہتھیار بھی تیار کیے جائیں۔

یہ فیصلہ جنوبی کوریا اور جاپان جیسے ممالک کے لیے ایک فوری خطرہ پیدا کر سکتا ہے، اور امریکہ کے لیے بھی سٹریٹیجک چیلنج بن سکتا ہے۔

🔹 مشقوں پر تنقید: “امن کو تباہ کرنے کی کوشش”

کم جونگ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ:

“یہ فوجی مشقیں خطے میں کشیدگی بڑھانے اور امن کے ماحول کو تباہ کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں، جس کا فوری اور سخت جواب دیا جائے گا۔”

یہ بیانیہ شمالی کوریا کی اس پالیسی کو ظاہر کرتا ہے جو ہر عسکری حرکت کو اپنی سلامتی پر حملہ سمجھتی ہے۔ اور اس کا ردِعمل ہمیشہ سخت اور غیر متوقع ہوتا ہے۔

🔹 “ہر ممکن اقدام کریں گے” — ایک کھلا انتباہ

شمالی کوریا کی حکومت نے متنبہ کیا ہے کہ:

“ہم اپنی قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدام کریں گے۔”

یہ بیان ایک واضح پیغام ہے کہ اگر امریکا یا جنوبی کوریا نے دباؤ بڑھایا، تو شمالی کوریا نہ صرف دفاعی بلکہ جارحانہ اقدامات کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔

🔹 علاقائی اور عالمی اثرات

جنوبی کوریا اور جاپان اب مزید دفاعی اقدامات کریں گے، ممکنہ طور پر امریکی دفاعی نظاموں پر انحصار بڑھایا جائے گا۔

امریکہ اپنے فوجی اڈوں کو مزید مضبوط کرے گا اور شاید بحیرہ جاپان میں جنگی جہاز تعینات کرے گا۔

چین اور روس بھی اس صورتحال میں اپنی پوزیشن واضح کریں گے، ممکنہ طور پر امریکہ پر الزام دھر کر شمالی کوریا کی حمایت کریں۔

اقوام متحدہ یا دیگر عالمی ادارے ممکنہ طور پر مزید پابندیوں یا مذاکرات کی کوشش کریں گے، لیکن مؤثر اقدام کا امکان کم ہے۔

🔹 ماضی کی روشنی میں موجودہ بحران

ماضی میں جب بھی شمالی کوریا نے ایسی دھمکیاں دی ہیں، اس کے بعد یا تو میزائل تجربے کیے گئے یا فوجی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا۔
یہ پیش رفت ماضی کی تاریخ کو دہرا سکتی ہے:

2017 میں ایٹمی تجربات

2022 میں آبدوز سے میزائل فائرنگ

2023 میں جنوبی کوریا کی سرحد پر فوجی مشقوں کے دوران میزائل فائرنگ

ایسی صورتحال عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔

🔚 نتیجہ: کیا ایک اور بحران سر اٹھا رہا ہے؟

شمالی کوریا کے بیانات کو محض سیاسی دباؤ سمجھنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
ان مشقوں کے جواب میں ایٹمی ہتھیاروں میں اضافہ نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ:

سفارتی ذرائع فوری طور پر فعال کیے جائیں۔

مذاکراتی دروازے کھلے رکھے جائیں، چاہے ثالث چین ہو یا اقوام متحدہ۔

عالمی طاقتیں اپنی سیاسی انا کو ایک طرف رکھ کر امن کو ترجیح دیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں