ایران کے میزائل حملے کے خلاف صرف اسرائیل ہی نہیں، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے کئی ممالک بھی میدان میں آگئے!

ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے، جب ایران نے “وعدۂ صادق سوم” نامی جوابی کارروائی میں 150 سے زائد میزائل داغے۔ یہ حملہ اسرائیل کے خلاف ایک بڑا عسکری اقدام تھا، جو تین مرحلوں میں کیا گیا—پہلے مرحلے میں 100، دوسرے میں 50، اور تیسرے مرحلے میں تقریباً 50 میزائل داغے گئے۔

اس حملے میں ایران نے اسرائیل کے مختلف عسکری اور حکومتی اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں اسرائیل کی وزارتِ دفاع بھی شامل ہے۔ تل ابیب اور دیگر شہروں میں میزائل گرنے سے دھماکوں کی گونج سنائی دی، جس سے یہ حملہ محض علامتی نہیں بلکہ شدید اور حقیقت پر مبنی نظر آیا۔

اسرائیل کے جدید دفاعی نظام، خاص طور پر “آئرن ڈوم” اور امریکی تعاون سے نصب کردہ “تھاڈ” (THAAD) نے کئی میزائلوں کو فضا میں ہی تباہ کر دیا۔ تاہم، سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ امریکی ٹی وی CNN کے مطابق نہ صرف امریکا بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے کئی عرب ممالک نے بھی اس حملے کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کی۔

یہ دعویٰ ایک غیر معمولی اسٹریٹجک اتحاد کی جانب اشارہ کرتا ہے، جو پسِ پردہ ایران کے اثرورسوخ کے خلاف مشترکہ دفاعی حکمتِ عملی پر کام کر رہا ہے۔ یہ ممالک بظاہر اسرائیل سے فاصلے پر نظر آتے ہیں، مگر خطے میں ایران کے بڑھتے اثر کو روکنے کے لیے عملی طور پر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔

ادھر معروف امریکی صحافی ٹکر کارلسن نے بھی بڑا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے حملے سے پہلے سے باخبر تھے۔ ان کے مطابق امریکا اس تنازع میں صرف ایک اتحادی نہیں بلکہ پوری طرح شامل ہے—فوجی امداد، ہتھیاروں کی ترسیل، انٹیلی جنس شیئرنگ اور سفارتی کور میں شامل تعاون اس کی کھلی نشانیاں ہیں۔

یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ ایران-اسرائیل جنگ کسی دو ممالک تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ ایک علاقائی اور عالمی طاقتوں کی پراکسی یا براہِ راست عسکری صف بندی کا نمونہ بن چکی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں