ایٹمی ہتھیار صرف ایک ملک کے لیے نہیں، بلکہ پورے خطے کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہیں—امن کی تلاش میں عالمی برادری کی کیا ذمہ داری ہے؟

اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی خطے میں تناؤ اور عدم تحفظ کا بڑا سبب ہے، خاص طور پر مسلمان ممالک کے لیے جو اپنے دفاع کی فکر کرتے ہیں۔ تاہم، ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ صرف ایک ملک کی ذمہ داری نہیں بلکہ تمام ممالک کا مشترکہ چیلنج ہے۔ عالمی سطح پر ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی ادارے مسلسل کوشاں ہیں تاکہ پورے خطے میں امن و استحکام قائم ہو سکے۔
مسائل کا حل طاقت کے استعمال میں نہیں بلکہ مذاکرات اور اعتماد سازی میں ہے، کیونکہ حملے یا جوابی کارروائیاں نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرناک ہیں بلکہ خطے کی کشیدگی کو بھی بڑھاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی اور ان کے استعمال کے خطرات کو کم کرنے کے لیے تمام فریقوں کو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدات پر عمل کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کی سالمیت کا احترام کرنا ہوگا۔
امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ممالک اپنے دفاع کو مضبوط بنائیں، مگر ساتھ ہی عالمی قوانین اور سفارتی طریقوں کو ترجیح دیں تاکہ خطے میں دیرپا امن اور سلامتی کا قیام ممکن ہو۔ اس سلسلے میں عالمی برادری کا کردار بھی بہت اہم ہے کہ وہ غیرجانبدارانہ طور پر تنازعات کو حل کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔
آپ کے خیال میں کیا موجودہ کشیدہ حالات میں مذاکرات کی گنجائش باقی ہے یا پھر امن کی تلاش میں کوئی نیا راستہ تلاش کرنا ہوگا؟