پاکستان کی اندرونی سلامتی کا بڑھتا ہوا بحران

پاکستان اس وقت ایک سنگین اندرونی سلامتی کے بحران سے دوچار ہے۔ دہشت گردی، شدت پسندی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی جیسے مسائل نے ملک کے امن و امان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں ریاست نے کئی بار دہشت گرد تنظیموں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشنز کیے، لیکن حالیہ واقعات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صرف طاقت کے استعمال سے دیرپا امن قائم کرنا ممکن نہیں۔ شدت پسند عناصر نہ صرف دوبارہ منظم ہو رہے ہیں بلکہ انہوں نے کئی علاقوں میں اپنی موجودگی کا بھرپور اظہار بھی کیا ہے، جو مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔

دوسری طرف، ملک میں جاری سیاسی کشمکش اور اداروں کے درمیان اختلافات نے ریاستی نظام کو کمزور کر دیا ہے۔ ایسے ماحول میں شدت پسند عناصر کو پنپنے کا موقع ملتا ہے کیونکہ جب ادارے آپس میں ہم آہنگی کھو بیٹھیں تو غیر ریاستی عناصر کو میدان خالی ملتا ہے۔ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد تنظیمیں ایک بار پھر زور پکڑ رہی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے اور شہادتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسئلہ صرف ماضی کا نہیں رہا، بلکہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کر رہی ہے۔

معاشی بدحالی نے اس بحران کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور وسائل کی کمی نے عوام میں مایوسی پھیلا دی ہے۔ نوجوان نسل کے پاس تعلیم اور روزگار کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں، جس کے باعث ان میں بے یقینی اور ناراضی بڑھ رہی ہے۔ یہ صورت حال انتہا پسند تنظیموں کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتی ہے، جو ایسے نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں۔

ملک کے مختلف طبقات میں پھیلتی ہوئی خلیج بھی اندرونی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ مذہبی، لسانی اور سیاسی بنیادوں پر تقسیم بڑھ رہی ہے، جس سے سماجی ہم آہنگی متاثر ہو رہی ہے۔ ریاست کی جانب سے ان مسائل پر سنجیدگی سے توجہ نہ دینا بھی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ صرف عسکری طاقت استعمال کرنے سے نہ تو سوچ بدلی جا سکتی ہے اور نہ ہی نظریات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک ہمہ جہت قومی حکمت عملی کی ضرورت ہے، جو تعلیم، روزگار، مکالمے اور شفاف طرز حکمرانی پر مبنی ہو۔

پاکستان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگر ہم نے اس وقت اپنے داخلی مسائل کا ادراک نہ کیا اور محض وقتی حلوں پر انحصار کرتے رہے، تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ امن کا راستہ صرف بندوق سے نہیں، بلکہ انصاف، برابری، اور فکری آزادی سے گزرتا ہے۔ دیرپا امن تب ہی ممکن ہے جب ریاست اور عوام مل کر ایک متفقہ سمت میں آگے بڑھیں، ورنہ خطرات منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں