مفتی صاحب اور BMW: سوشل میڈیا کی غلط فہمیاں اور حقیقت

حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک غلط فہمی گردش کر رہی ہے کہ مفتی صاحب نے اسرائیلی گاڑی استعمال کی ہے، جس میں حقیقت کی کوئی بنیاد نہیں۔ اس قسم کی افواہیں نہ صرف بے بنیاد ہیں بلکہ کسی شخصیت کی عزت و احترام کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ آئیے اس کے پیچھے چھپی حقیقت کو سمجھیں۔

سب سے پہلی بات یہ کہ BMW ایک جرمن آٹو کمپنی ہے، جس کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اپنی معیار اور پائیداری کے لیے جانی جانے والی اس کمپنی کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں، اور نہ ہی اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا ہے۔ ایسی غلط فہمیوں کا شکار ہونا محض اس بات کا نتیجہ ہے کہ ہم اکثر چیزوں کو بنا تحقیق کے دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ جس BMW میں مفتی صاحب کو دیکھا گیا، وہ ان کی ذاتی گاڑی نہیں تھی۔ دراصل، مفتی صاحب خیبر پختونخوا ایک پروگرام یا ملاقات کے لیے تشریف لائے تھے، جہاں ایک شخص نے اپنی ذاتی گاڑی بطور مہمان پیش کی تھی تاکہ انہیں بہترین انداز میں خوش آمدید کہا جا سکے۔ یہ صرف اور صرف عزت و احترام کا مظہر تھا، نہ کہ کسی عیش و عشرت کا نمائندہ۔

یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ علمائے کرام ہماری دینی رہنمائی کا اہم ذریعہ ہیں۔ ایسے جھوٹے الزامات اور افواہوں سے نہ صرف ان کی شخصیت کو متاثر کیا جاتا ہے بلکہ ہماری معاشرتی ہم آہنگی بھی متاثر ہوتی ہے۔ سچائی کا پتہ لگانا اور بغیر تحقیق کے کسی پر تنقید کرنے سے گریز کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

لہٰذا، ہمیں سوشل میڈیا پر اس طرح کی بے بنیاد باتوں سے بچنا چاہیے اور ہمیشہ تحقیق کرنے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں