پاکستان کا چھ سٹریٹجک کینال منصوبہ: ایک تفصیلی تجزیہ

پاکستان میں زرعی شعبہ ہمیشہ سے ملک کی معیشت کی بنیاد رہا ہے، لیکن حالیہ برسوں میں زرعی اراضی کا کم ہونا، پانی کی کمی اور جدید طریقہ کار کی عدم دستیابی جیسے مسائل نے اس شعبے کو متاثر کیا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے “پاکستان گرین انیشی ایٹو” کے تحت ایک بڑا منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت چھ نئی نہروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔ ان نہروں کا مقصد ملک بھر میں 40 لاکھ ایکڑ غیر آباد اراضی کو آباد کرنا اور کسانوں کو جدید طریقہ کار سے فائدہ پہنچانا ہے۔ لیکن اس منصوبے کی منظوری کے بعد صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور سیاسی اختلافات نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

پاکستان گرین انیشی ایٹو: منصوبے کا مقصد

پاکستان گرین انیشی ایٹو کا مقصد ملک کی زرعی زمینوں کو سیراب کرنا ہے تاکہ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جا سکے اور کسانوں کو جدید زراعت کے ذریعے فائدہ پہنچایا جا سکے۔ اس منصوبے کے تحت چھ نئی نہریں تعمیر کی جائیں گی، جن میں سندھ، پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقے شامل ہیں۔

وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو “چھ سٹریٹجک کینال” کا نام دیا ہے اور ان نہروں کے ذریعے سندھ میں تھر اور رینی کینالز، پنجاب میں چولستان اور گریٹر تھل کینالز، بلوچستان میں کچھی کینال اور خیبر پختونخوا میں چشمہ رائٹ بینک کینال تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان نہروں سے حاصل ہونے والے پانی سے 40 لاکھ ایکڑ زمین کو سیراب کیا جائے گا۔

صوبوں کے درمیان اختلافات

اگرچہ وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو ملکی زراعت کی ترقی کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا ہے، مگر اس پر مختلف صوبوں میں شدید اختلافات سامنے آ چکے ہیں۔ سندھ خاص طور پر اس منصوبے کے خلاف ہے، اور یہاں کے کسان، قوم پرست جماعتیں اور مذہبی تنظیمیں اس منصوبے کو سندھ کے حق میں پانی کی تقسیم پر حملہ قرار دے رہی ہیں۔

سندھ کے کسانوں کا کہنا ہے کہ ان نہروں کا پانی سندھ کے حصے پر اثر انداز ہو گا اور ان کے زرعی حقوق متاثر ہوں گے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس منصوبے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ وفاقی حکومت اس منصوبے کو واپس لے۔

بلاول بھٹو زرداری نے حیدرآباد میں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ یہ منصوبہ وفاق کو سیاسی اور اقتصادی سطح پر نقصان پہنچا سکتا ہے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کو مشکلات میں ڈال سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو فوری طور پر اس منصوبے کو واپس لینا چاہیے یا پھر پیپلز پارٹی اس کے ساتھ تعاون نہیں کر سکتی۔

چولستان کینال: ایک متنازع منصوبہ

اس منصوبے کے تحت سب سے زیادہ شور چولستان کینال پر اٹھ رہا ہے۔ چولستان کینال کی تعمیر کے لیے پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر ایک بڑا منصوبہ تیار کیا ہے، جس کا مقصد پنجاب کے بہاولپور اور بہاولنگر اضلاع کو سیراب کرنا ہے۔ اس منصوبے کی لاگت تقریباً 225 ارب روپے ہے اور اس میں ستلج دریا سے پانی نکال کر چولستان تک پہنچایا جائے گا۔

چولستان کینال کے بارے میں سندھ کی حکومت اور سندھ کے کسانوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے سندھ کے حصے کا پانی کم ہو سکتا ہے، جو پہلے ہی پانی کی کمی کے شکار ہیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر چولستان کینال سے پانی کی فراہمی بڑھی تو سندھ کے علاقوں میں پانی کی کمی مزید بڑھ جائے گی، جس سے زرعی پیداوار پر منفی اثر پڑے گا۔

وفاقی حکومت کی پوزیشن

وفاقی حکومت نے اس منصوبے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا مقصد ملک کی زرعی زمین کو آباد کرنا اور کسانوں کی حالت بہتر بنانا ہے۔ وفاقی وزیر آبی وسائل معین وٹو نے قومی اسمبلی میں اس منصوبے کے حوالے سے تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے اہمیت کا حامل ہے اور اس سے ملکی زراعت کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ اس منصوبے کے تحت پنجاب کے لیے لیسر چولستان نہر کے منصوبے کی منظوری دے دی گئی ہے اور اس کے لیے ارسا سے این او سی بھی جاری ہو چکا ہے۔

پانی کی تقسیم اور صوبائی خود مختاری

پانی کی تقسیم ہمیشہ سے پاکستان میں ایک حساس مسئلہ رہا ہے، خاص طور پر سندھ اور پنجاب کے درمیان۔ سندھ اپنے حصے کا پانی مانگ رہا ہے جبکہ پنجاب کی حکومت نے مختلف منصوبوں کے ذریعے اپنے علاقے میں پانی کی فراہمی بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اس منصوبے کے تحت چھ نئی نہروں کی تعمیر سے یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے اس منصوبے کی منظوری کے بعد سندھ حکومت نے اس پر اعتراضات اٹھائے ہیں اور یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس منصوبے کو صوبوں کی مشاورت سے منظور کیا جائے۔ سندھ کا کہنا ہے کہ پانی کی منصفانہ تقسیم کے بغیر یہ منصوبہ صوبے کے حقوق پر حملہ ہو گا۔

آگے کا راستہ

فی الحال وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے درمیان اس منصوبے پر بات چیت جاری ہے، لیکن ابھی تک اس پر کوئی خاص پیشرفت نہیں ہو سکی۔ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ تمام صوبوں کی مشاورت سے اس کی منظوری دی جائے اور پانی کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔

پاکستان کا چھ سٹریٹجک کینال منصوبہ ایک تاریخی قدم ہو سکتا ہے جس سے ملک کی زرعی پیداوار میں اضافہ ہو گا، لیکن اس کے لیے سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ اگر وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان اس معاملے پر مکمل اتفاق رائے حاصل کیا جائے تو یہ منصوبہ پاکستان کے زرعی شعبے میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں