اسرائیلی جارحیت کے باعث فلسطینی شہری قبرستان میں پناہ لینے پر مجبور

غزہ — اسرائیل کی جانب سے جاری شدید بمباری اور زمینی کارروائیوں نے غزہ کے شہریوں کو بدترین انسانی بحران میں دھکیل دیا ہے، یہاں تک کہ بہت سے فلسطینی اپنی جانیں بچانے کے لیے قبرستانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ اور مختلف بین الاقوامی امدادی اداروں کے مطابق، غزہ کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکا ہے۔ محفوظ مقامات کی قلت، پناہ گاہوں کی تباہی اور مسلسل فضائی حملوں کے باعث شہریوں کو ایسے علاقوں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے جو روایتی طور پر انسانی رہائش کے لیے موزوں نہیں سمجھے جاتے، جیسے کہ قبرستان۔
مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی خاندانوں نے قبروں کے درمیان خیمے لگا رکھے ہیں، کچھ لوگ قبروں کے پیچھے پناہ لیتے ہیں تاکہ ممکنہ بمباری سے بچ سکیں۔ بارش، سردی، اور خوراک کی کمی جیسے مسائل ان بے گھر افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔
ایک مقامی شہری نے روتے ہوئے میڈیا کو بتایا:
“ہم قبرستان میں بیٹھے ہیں، کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ شاید یہاں بم نہ گرے۔ ہمارے بچے بھوکے ہیں، بیمار ہیں، مگر ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں۔”
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، اسرائیلی حملوں میں ہزاروں شہری جاں بحق اور لاکھوں زخمی ہو چکے ہیں۔ ہسپتالوں پر شدید دباؤ ہے، جبکہ طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔
اقوام متحدہ نے غزہ میں پیدا ہونے والی اس سنگین صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ “یہ انسانیت کے لیے ایک المیہ ہے۔ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا بین الاقوامی قوانین کے تحت لازم ہے۔”
دوسری جانب، اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ حماس کے خلاف کارروائیاں کر رہا ہے، تاہم زمینی حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ان کارروائیوں کا سب سے بڑا نشانہ عام شہری بن رہے ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
بین الاقوامی برادری سے فلسطینی عوام کی اپیل ہے کہ فوری جنگ بندی کرائی جائے، انسانی امداد کی راہیں کھولی جائیں اور شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق واپس دلائے جائیں۔
قبرستان میں پناہ لینے والے فلسطینی اس وقت نہ صرف ایک جنگ، بلکہ ایک سنگین انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں — اور دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔