صدر ٹرمپ کا انڈیا کے خلاف تجارتی محاذ پر نیا وار — ’یہ صرف آغاز ہے‘، مزید پابندیوں کی دھمکی دے دی گئی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک تقریب کے دوران بی بی سی کے سوال پر جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ انڈیا پر عائد کی جانے والی تجارتی محصولات محض شروعات ہیں اور مستقبل میں مزید سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا: ’ابھی آپ کو بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا، بہت سی دیگر پابندیاں۔‘
ٹرمپ انڈیا سے کیوں نالاں ہیں؟
صدر ٹرمپ کا بنیادی اعتراض انڈیا کی جانب سے امریکی مصنوعات پر لگائے جانے والے بلند درآمدی محصولات پر ہے۔ ان کے مطابق انڈیا امریکی مصنوعات پر غیرمنصفانہ حد تک زیادہ ٹیکس عائد کرتا ہے، جبکہ امریکی مارکیٹ انڈین اشیاء کے لیے نسبتاً کھلی ہے۔ اس عدم توازن کو “غیر منصفانہ تجارتی رویہ” قرار دیتے ہوئے وہ انڈیا پر دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ امریکہ کو بھی برابر کا تجارتی موقع دیا جائے۔
محصولات انڈیا کو کیسے متاثر کریں گے؟
برآمدات میں کمی:
نئے امریکی محصولات انڈین برآمدات کو مہنگا بنا دیں گے، جس سے ان کی مانگ گھٹنے کا خطرہ ہے، خاص طور پر ٹیکسٹائل، ادویات، اور زرعی مصنوعات جیسے شعبوں میں۔
معاشی دباؤ:
انڈیا کی معیشت پہلے ہی سست روی کا شکار ہے، ایسے میں امریکی مارکیٹ تک محدود رسائی اس دباؤ میں اضافہ کرے گی، خصوصاً چھوٹے اور درمیانے درجے کے برآمد کنندگان کے لیے۔
دوطرفہ تعلقات میں تناؤ:
ان پابندیوں سے امریکہ-انڈیا کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات میں کھچاؤ آ سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دونوں ممالک چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔
تجارتی جنگ کا خدشہ؟
اگر انڈیا جوابی اقدامات کرتا ہے تو یہ ایک محدود تجارتی جنگ کا روپ بھی دھار سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کے تاجروں کو نقصان ہو گا بلکہ عالمی تجارتی استحکام بھی متاثر ہو سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ کا یہ سخت رویہ ان کی “امریکہ فرسٹ” پالیسی کا تسلسل ہے، جس میں وہ امریکہ کے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے جارحانہ اقدامات کرتے آ رہے ہیں۔ انڈیا جیسے بڑے تجارتی پارٹنر کے ساتھ بھی نرمی دکھانے کے بجائے وہ براہ راست دباؤ کی پالیسی اپنا رہے ہیں۔