بارش، میت اور ہماری حقیقت — ایک لمحۂ فکریہ

کبھی آپ نے کسی جنازے کے وقت ہونے والی بارش دیکھی ہے؟
وہ منظر بہت عام ہے مگر اس میں ایک خاص سبق چھپا ہے۔ ایک میت، چار کندھوں پر اٹھا کر لے جائی جا رہی ہوتی ہے۔ رشتہ دار، دوست، محلے دار سب ساتھ ہوتے ہیں۔ اچانک بارش شروع ہو جاتی ہے۔ لوگ ادھر اُدھر بھاگنے لگتے ہیں، کسی کو اپنے کپڑے خراب ہونے کی فکر ہے، کسی کو جوتوں کی، کسی کو موبائل فون کی۔ اور میت؟ اسے پلاسٹک کی ایک چادر میں لپیٹ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
وہی میت جسے دنیا میں “ابو”، “بھائی”، “بیٹا”، “شوہر” کہہ کر پکارا جاتا تھا، وہی جس کے لیے لوگ ہنستے تھے، روتے تھے، دعائیں مانگتے تھے — آج وہ بارش میں تنہا پڑا ہے، اور سب بارش سے بچنے کے لیے چھتوں اور کمروں کی پناہ میں چلے گئے ہیں۔
یہی تو ہماری اور آپ کی کہانی ہے۔
زندگی بھر ہم انہی رشتوں کو خوش کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ ماں باپ کی رضا، بیوی بچوں کی خواہشات، دوستوں کے تقاضے، دنیا کی دوڑ — اور اس دوڑ میں کب اپنے رب کو ناراض کر بیٹھتے ہیں، ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ کبھی نماز قضا، کبھی جھوٹ، کبھی کسی کا دل توڑنا، کبھی حقوق العباد میں کوتاہی… اور ہم سوچتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے، کیونکہ دنیا ہم سے خوش ہے۔
لیکن آخر میں…؟ آخر میں ہماری حیثیت ایک پلاسٹک کی چادر سے زیادہ کچھ نہیں رہ جاتی۔
ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ رب، جس نے ہمیں پیدا کیا، جس نے ہمیں رزق دیا، جس نے ہمیں ہر لمحہ سنبھالا، ہم اُسی کو ناراض کر کے اُن لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے رہے جو آخر میں ہمیں بارش میں بھی تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔
ایک لمحہ رُک کر سوچیے…
دنیا کی یہ چمک دمک، یہ رشتوں کی رونقیں، سب عارضی ہیں۔ اصل حقیقت قبر کی تنہائی ہے، اور محشر کی سختی۔ اُس دن نہ ماں بچے گی، نہ باپ، نہ کوئی رشتہ دار۔ بس ہمارے اعمال ہوں گے — اچھے یا برے۔
تو کیا ہی بہتر ہو کہ ہم اپنی زندگی کا مقصد صرف دنیا داری نہ بنائیں۔ رب کی رضا کو اپنی پہلی ترجیح بنائیں۔ نماز کو اپنا سکون سمجھیں، سچائی کو اپنی زینت بنائیں، اور نیکی کو اپنی شناخت۔
کیونکہ آخر میں، سب کچھ پیچھے رہ جائے گا۔ ساتھ صرف وہی جائے گا جو ہم رب کے لیے کرتے ہیں۔