“ایک بار پڑھ لینا، شاید کسی کی جان بچا لے!”

ذہنی صحت کی آگاہی آج کے دور میں پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو چکی ہے۔ آج صبح ایک افسوسناک خبر نے دل دہلا دیا — ایک نوجوان، وقاص، نے خود کو گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں، یہ ایک چیخ ہے، ایک خاموش فریاد جو ہم سب کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔

میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ ہمیں ذہنی صحت کے بارے میں کھل کر بات کرنی چاہیے۔ ہم سب اس نہ ختم ہونے والی دوڑ میں لگے ہیں — کامیابی، دولت، اور مقام حاصل کرنے کی دوڑ۔ مگر کب سوچا کہ اس دوڑ میں ہمارا دماغ، ہمارا دل، ہماری روح کس حال میں ہے؟ کیا واقعی صرف پیسہ ہی سب کچھ ہے، جب ہماری صحت، خاص طور پر ذہنی صحت، خطرے میں پڑ چکی ہو؟

خودکشی کبھی بھی ایک آسان یا فوری فیصلہ نہیں ہوتا۔ یہ اس وقت کی جاتی ہے جب انسان مکمل مایوسی میں ڈوب جائے، جب اسے کوئی راہ نظر نہ آئے، جب دل میں درد ہو اور زبان پر لفظ نہ ہوں، جب اسے یہ بھی نہ معلوم ہو کہ وہ کس سے اپنا دکھ بیان کرے۔ المیہ یہ ہے کہ آج کے دور میں کوئی سننے والا نہیں۔ ہم دکھ بانٹنے جائیں تو لوگ ہمیں اپنے مسائل کا انبار سنا دیتے ہیں۔

خدارا، تھوڑا رحم کریں۔ خود پر بھی، اور دوسروں پر بھی۔
اپنے آس پاس کے لوگوں پر توجہ دیں۔ ایک فون کال، ایک مسکراہٹ، ایک چھوٹا سا سوال — “تم ٹھیک ہو؟” — شاید کسی کو بچا لے۔
یاد رکھیں، ہم انسان ہیں، مشین نہیں۔ “خود مختار” ہونے کا تصور جتنا خوبصورت لگتا ہے، حقیقت میں ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں — جذباتی، معاشرتی، اور نفسیاتی طور پر۔

اللہ وقاص کو جنت الفردوس میں جگہ دے، اور ان کے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
یہ لمحہ ہمارے لیے ایک بڑا سبق ہے:
اپنوں سے بات کریں، اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں