سائنسدانوں کا10 ہزار برس قبل معدوم ہو جانے والے ’ڈائر وولف‘ بھیڑیوں کی قدیم ڈی این اے، کلوننگ اور جینیاتی تبدیلی کی مدد سے دوبارہ پیدائش کا دعویٰ ۔

سائنسدانوں نے حال ہی میں ایک ایسا دعویٰ کیا ہے جسے سن کر سائنس فکشن فلموں کا منظر حقیقی محسوس ہونے لگتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے 10 ہزار سال قبل معدوم ہونے والے ڈائر وولف (Dire Wolf) یعنی قدیم دیو ہیکل بھیڑیے کو دوبارہ زندہ کرنے کا منصوبہ کامیابی سے مکمل کرنے کے قریب پہنچا دیا ہے۔ یہ دعویٰ نہ صرف سائنسی تحقیق میں ایک اہم سنگِ میل ہے بلکہ قدرت اور انسان کے درمیان توازن کے بارے میں نئے سوالات بھی جنم دیتا ہے۔
ڈائر وولف، جو زمانہ قدیم میں امریکہ کے میدانوں میں پایا جاتا تھا، عام بھیڑیے سے کہیں زیادہ بڑا، طاقتور اور خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اس کی جسامت، دانتوں کی ساخت اور شکار کرنے کی صلاحیت اسے قدیم شکاریوں کی فہرست میں سرفہرست رکھتی تھی۔ مگر تقریباً 10 ہزار سال قبل، ماحولیاتی تبدیلی، خوراک کی کمی اور دیگر قدرتی عوامل کے باعث یہ نسل ختم ہو گئی۔
تاہم، جدید سائنس نے جینیاتی تحقیق اور کلوننگ کی مدد سے ایک حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ محققین نے قدیم برفانی تہوں، فوسلز اور ہڈیوں سے حاصل کردہ ڈائر وولف کا ڈی این اے بڑی محنت سے اکٹھا کیا، جسے لیبارٹری میں کلوننگ اور جینیاتی ایڈیٹنگ کے جدید ترین طریقوں کے ذریعے دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جس کے ذریعے سائنسدان مستقبل میں دوسرے معدوم جانوروں جیسے ماموتھ (Woolly Mammoth) کو بھی واپس لانے کی امید رکھتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ڈائر وولف کے ڈی این اے کو موجودہ وقت کے کسی قریبی جاندار—جیسے گرے وولف یا کتے—کے جینیاتی ڈھانچے کے ساتھ ملا کر ایک “Hybrid” یا مخلوط نسل تیار کی جا سکتی ہے، جو نہ صرف ڈائر وولف جیسی جسمانی ساخت رکھے گی بلکہ اس کی خاص عادات اور جبلت بھی جزوی طور پر واپس لا سکے گی۔ اگر یہ تجربہ مکمل کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے تو یہ پہلا موقع ہو گا جب انسان ایک مکمل طور پر معدوم جاندار کو دوبارہ زندگی دے گا۔
مگر اس پیش رفت پر سائنسی حلقوں میں کچھ تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ ماہرین حیاتیات اور ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی معدوم جانور کو دوبارہ زمین پر لانا ایک خطرناک فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف موجودہ ماحولیاتی نظام میں خلل پڑ سکتا ہے بلکہ قدرتی توازن بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا جانور، جو ہزاروں سال پہلے کے ماحول میں پروان چڑھا، موجودہ دنیا کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ ہو گا؟ کیا وہ انسانوں یا موجودہ حیاتیاتی اقسام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے؟
اس کے باوجود، ڈائر وولف کی واپسی کا یہ خیال انسان کی صدیوں پرانی جستجو، تجسس اور سائنسی ترقی کی علامت ہے۔ یہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم قدرت کے ساتھ کیا کچھ کر سکتے ہیں—اور کیا کرنا چاہیے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ بھیڑیا فلموں اور کہانیوں سے نکل کر ایک بار پھر جنگلات میں دھاڑتا ہے یا صرف تجربہ گاہوں کی حد تک محدود رہتا ہے۔ ایک بات طے ہے: سائنس نے ناممکن کو ممکن بنانے کی ایک اور کوشش ضرور کر ڈالی ہے، اور اس کا انجام پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں