“میر علی ڈرون حملے میں بچوں کی ہلاکت پر دھرنا — احتجاج نے آواز بلند کی، مذاکرات نے راستہ نکالا۔”

“ڈرون حملے میں بچوں کی ہلاکت، میر علی سراپا احتجاج”
شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں 19 مئی کو ہونے والے مبینہ ڈرون حملے میں چار معصوم بچوں کی ہلاکت نے پورے علاقے کو سوگوار اور مشتعل کر دیا۔ واقعے کے خلاف مقامی افراد نے دھرنا دے کر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا، جو کئی روز تک جاری رہا۔
دھرنے میں علاقے کے قبائلی مشران، سماجی کارکنوں، نوجوانوں اور متاثرہ خاندانوں نے شرکت کی۔ ان کا مطالبہ واضح تھا: اس واقعے کی شفاف تحقیقات، متاثرہ خاندانوں کو انصاف، اور مستقبل میں ایسے حملوں کی روک تھام۔
دھرنا پرامن تھا مگر جذبات سے لبریز۔ لوگوں کے چہروں پر غم بھی تھا اور غصہ بھی — ان کا کہنا تھا کہ “ہمارے بچوں کی جانیں اس قدر سستی نہیں کہ وہ کسی گمنام حملے کی نذر ہو جائیں اور کوئی جواب دہ نہ ہو۔”
بالآخر پیر کے روز انتظامیہ اور دھرنا مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات کے بعد مظاہرین نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔ انتظامیہ نے یقین دہانی کروائی کہ:
واقعے کی شفاف تحقیقات کی جائیں گی،
متاثرہ خاندانوں کو مکمل معاونت فراہم کی جائے گی،
اور علاقے میں شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے۔
یہ واقعہ شمالی وزیرستان کے ان زخموں کو پھر سے تازہ کر گیا ہے جو گزشتہ دہائیوں میں سیکیورٹی چیلنجز اور تنازعات کے باعث لگے۔ تاہم دھرنے کے پُرامن اختتام نے یہ ثابت کیا کہ آواز اٹھائی جائے تو انصاف کی راہ کھلتی ہے، بشرطیکہ ریاست سننے کو تیار ہو۔