پاکستان میں شمسی توانائی کی دوڑ، 4.1 گیگاواٹ کی حد عبور — پیرووسکائٹ سیلز نئی امید!

پاکستان میں توانائی بحران اور بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں کے پیش نظر شمسی توانائی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق، ملک کی شمسی توانائی کی تنصیب شدہ صلاحیت دسمبر 2024 تک 4.1 گیگاواٹ سے تجاوز کر چکی ہے۔

یہ اضافہ نیٹ میٹرنگ پالیسی، سستی سولر پینلز کی دستیابی اور بڑھتے ہوئے صارفین کے رجحان کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ اس وقت 283,000 سے زائد صارفین نیٹ میٹرنگ کے ذریعے گرڈ سے جُڑے ہوئے ہیں، جن میں گھریلو، کمرشل اور صنعتی صارفین شامل ہیں۔

صوبائی اعداد و شمار:
پنجاب: 2,546 میگاواٹ

سندھ: 1,065 میگاواٹ

اسلام آباد: 393 میگاواٹ
(ذرائع: نیپرا، pv-magazine، 2024)
پیرووسکائٹ سولر سیلز: توانائی کا مستقبل
روایتی سلیکون سولر سیلز کے مقابلے میں پیرووسکائٹ سولر سیلز تیزی سے دنیا بھر میں مقبول ہو رہی ہیں۔ یہ سیلز نہ صرف کم قیمت پر دستیاب ہیں بلکہ ان کی کارکردگی بھی حیران کن ہے — لیبارٹری میں ان کی کارکردگی 25% سے زائد دیکھی گئی ہے، جب کہ سلیکون کے ساتھ ٹینڈم بنانے پر یہ 30% کے قریب پہنچ جاتی ہے۔

پیرووسکائٹ ٹیکنالوجی کی خصوصیات:
کم لاگت میں زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت

لچکدار اور ہلکے وزن والے پینل

آسان پیداوار اور کم توانائی درکار

روایتی انفراسٹرکچر کے ساتھ مطابقت

دنیا بھر میں ترقی:
چین، جرمنی اور امریکہ میں پیرووسکائٹ پلانٹس تیار کیے جا رہے ہیں

IDTechEx کی رپورٹ کے مطابق، 2035 تک عالمی پیداوار 85 گیگاواٹ سالانہ ہو سکتی ہے

🌍 پاکستان کے لیے امکانات اور چیلنجز
مواقع:

دیہی علاقوں میں آف گرڈ سلوشنز کے ذریعے توانائی کی رسائی

مقامی مینوفیکچرنگ اور R&D سے روزگار کے مواقع

کم لاگت سے طویل مدتی توانائی خود کفالت

چیلنجز:

ٹیکنالوجی کی پائیداری پر مزید تحقیق

مالیاتی اداروں سے تعاون کی کمی

سولر پالیسی میں تسلسل اور شفافیت کی ضرورت
پاکستان میں شمسی توانائی کی بڑھتی ہوئی صلاحیت، اور پیرووسکائٹ جیسی جدید ٹیکنالوجیز کا متعارف ہونا اس بات کی علامت ہے کہ ملک توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب ایک مضبوط قدم بڑھا چکا ہے۔ اگر پالیسی، سرمایہ کاری اور تحقیق میں ہم آہنگی برقرار رہی، تو پاکستان نہ صرف توانائی بحران پر قابو پا سکتا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں گرین انرجی لیڈر بھی بن سکتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں