ایران اور اسرائیل کے درمیان تناؤ ایک بار پھر خطرناک حد تک بڑھ گیا—میزائلوں کی گونج اور سفارتی نقل و حرکت عالمی امن کو جھنجھوڑ رہی ہے۔

ایران کی میزائل حملوں کی نئی لہر
ایرانی فورسز نے اسرائیل پر میزائلوں کی تازہ بارش شروع کر دی ہے، جو کہ حالیہ کشیدگی کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ یہ حملے ایران کی جانب سے براہِ راست کارروائی کے طور پر لیے جا رہے ہیں، جو ماضی میں زیادہ تر پراکسی گروپس (جیسے حزب اللہ یا حماس) کے ذریعے لڑتا رہا ہے۔
یہ حملے اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ ایران اب زیادہ براہ راست اور جارحانہ پوزیشن لینے کو تیار ہے۔
اسرائیل کا ردعمل:
فوجی الرٹ:
اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) نے شہریوں کو محتاط رہنے، پناہ گاہوں کا رخ کرنے، اور ہنگامی خبروں پر نظر رکھنے کی ہدایت دی ہے۔
فضائی دفاعی نظام فعال:
آئرن ڈوم اور دیگر دفاعی نظاموں کو مکمل فعال کر دیا گیا ہے، اور اسرائیلی فضائیہ ممکنہ جوابی حملوں کی تیاری میں ہے۔
سیاستدانوں کا مؤقف:
اسرائیلی وزیراعظم اور وزراء نے ان حملوں کو “قومی خودمختاری پر براہ راست حملہ” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری ردعمل کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ کا ردعمل:
سفارتی عملہ یروشلم سے منتقل:
امریکی محکمہ خارجہ نے یروشلم میں اپنے سفارتکاروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں، جو اس کشیدگی کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی تشویش:
امریکی حکام نے ایران کے اس قدم کو “خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ” قرار دیا ہے۔ نیٹو اتحادیوں سے مشاورت اور ممکنہ فوجی یا سفارتی اقدامات پر غور جاری ہے۔
عالمی ردعمل اور ممکنہ اثرات:
ملک ممکنہ ردعمل
سعودی عرب/خلیجی ممالک کشیدگی سے دور رہنے کی کوشش، لیکن خفیہ طور پر اسرائیل کو سپورٹ
چین و روس ایران کی حمایت یا غیرجانب دارانہ اپیل برائے تحمل
یورپی یونین فائر بندی کی کوشش اور سفارتی مذاکرات کی اپیل
اقوام متحدہ ہنگامی اجلاس اور جنگ بندی کی قرارداد ممکن
کیا جنگ کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟
یہ صورتحال مکمل جنگ کی طرف بڑھ سکتی ہے، خصوصاً اگر:
اسرائیل براہِ راست ایران کی سرزمین پر جوابی حملہ کرتا ہے۔
امریکہ یا نیٹو ممالک کسی قسم کی فوجی مداخلت کرتے ہیں۔
خطے میں موجود دیگر گروہ جیسے حزب اللہ یا حماس اس کشیدگی میں شامل ہو جاتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر شدید بحران کی دہلیز پر کھڑا ہے۔ ایران کے میزائل حملے، اسرائیلی ردعمل، اور امریکی سفارتی حرکتیں سب اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ آئندہ چند دن عالمی سیاست کے لیے نہایت نازک ہو سکتے ہیں۔
یہ کشیدگی صرف دو ممالک کی نہیں، بلکہ ایک عالمی چیلنج بنتی جا رہی ہے۔