“کولوراڈو کی پرامن ریلی پر دہشت گردانہ حملہ: اسرائیل کی حمایت میں نکالی گئی ریلی میں 6 افراد زخمی”

امریکی ریاست کولوراڈو کے دارالحکومت ڈینور میں گزشتہ روز ایک پرامن ریلی پر فائرنگ کے واقعے نے تشویش پیدا کر دی ہے۔ یہ ریلی اسرائیل کے حق میں نکالی گئی تھی، جس میں شامیشر شرکاء نے علاقے میں بڑھتے ہوئے فلسطینی-اسرائیلی تنازع پر اپنا نقطۂ نظر ظاہر کیا تھا۔ ریلی جمعہ کی شام منعقد ہوئی، جس کے دوران ایک حملہ آور نے اندھا دھند فائرنگ کر کے کم از کم چھ افراد کو زخمی کر دیا۔ واقعے کے بعد فوری طور پر ایلیٹ کمانڈوز کو طلب کر کے علاقے میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے۔

واقعے کی تفصیلات
مقام و وقت

واقعہ ڈینور کے مغربی پنجاب علاقے میں پیش آیا۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں شام سے نکالی گئی ریلی جمعہ کی دوپہر سے شروع ہوئی تھی اور شام کے چار بجے کے قریب پورا راستہ کولوراڈو اسٹریٹ پر ختم ہوتا تھا۔

حملہ آور نے ریلی کے اختتام پر جب شرکاء امن و محبت کے نعرے لگا رہے تھے، اچانک پلاٹینم ہائی وے کے قریب سے اپنی پستول نکالی اور اندرونی دائرہ میں کھڑے شرکاء کو نشانہ بنایا۔

زخمیوں کی تعداد اور حالت

ابتدا میں چھ افراد زخمی ہوئے جن میں چار شہری اور دو مقامی پولیس اہلکار شامل ہیں۔ زخمیوں کو فوری طور پر قریبی یونیورسٹی آف کولوراڈو اسپتال منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ چار کی حالت معتدل ہے، جبکہ دو افراد کے سر پر گولیاں لگنے کی وجہ سے ان کا علاج تاحال جاری ہے، مگر ان کی جان خطرے سے باہر قرار دی گئی ہے۔

زخمیوں میں دو خواتین اور دو مرد شامل ہیں، جن کی عمریں 25 سے 45 سال کے درمیان ہیں۔ زخمیوں میں سے ایک نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ “ہم لوگ ریلی کے اختتام پر ہاتھوں میں بینرز لے کر واپس جا رہے تھے کہ اچانک دھماکہ سا ہوا اور کئی گولیاں ہمارے اردگرد چلنے لگیں۔”

حملہ آور کی شناحت اور گرفتاری

ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملہ آور شناخت کے لیے ڈینور سٹی پولیس ڈیپارٹمنٹ (DPD) کی تفتیشی ٹیموں نے پلاٹینم ہائی وے اور 15 ویں اسٹریٹ کے چوراہے پر ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ حملہ آور نے شناخت چھپانے کے لیے سیاہ رنگ کا ہوڈی پہنا ہوا تھا اور اس نے موجودہ مقام سے فائرنگ کے بعد بھاگنے کی کوشش کی، مگر پولیس نے اُس کے ناکاں سے چند بلاوے بازی کر کے نشانہ بنایا اور دوپہر تقریباً چار بج کر پندرہ منٹ پر قریبی علاقے سے گرفتار کیا۔

گرفتار شخص کی عمر تقریباً 28 برس ہے اور اس کے خلاف فوری طور پر وفات کے دھمکی آمیز پیغامات اور دہشت گردی کی سازش کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

ریاستی اور وفاقی ردِ عمل
گورنر کا بیان

گورنر جان ہِکنلوپر نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا:

“ڈینور میں جو بھی احباب زخمی ہوئے، ان کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہوں۔ ریاست کولوراڈو میں مذہبی یا سیاسی اظہارِ رائے کا حق آئینی طور پر محفوظ ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی شخص لوگوں پر اندھا دھند حملہ کر سکتا ہے۔ ہم نے فوراً اسٹینڈرڈ آپریشن پروسیجرز (SOPs) جاری کر دیے ہیں اور تمام سیکیورٹی ایجنسیوں کو واقعے کی مکمل تفتیش کی ہدایت کی ہے۔”

امریکی وفاقی تفتیشی بیورو (FBI)

FBI نے بھی وقوعے میں ملوث شواہد اکٹھے کرنے کے لیے اپنی کولوراڈو فیلڈ آفس سے فوراً ٹیمیں روانہ کیں۔ ایک سینئر ایجنٹ نے بتایا:

“ہم واقعے کی وجوہات، حملہ آور کے محرکات اور ممکنہ معاونین کا سراغ لگانے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آیا یہ کوئی ترتیب وار دہشت گردانہ اقدام تھا یا کسی ذاتی دشمنی کا نتیجہ۔”

مقامی پولیس کی حکمتِ عملی

ڈینور پولیس چیف کے مطابق:

“ہم نے علاقے میں تلاشی اور سیکیورٹی کی بندوبست بڑھا دی ہے۔ اضافی ٹیموں کو تاحکم ثانی الرٹ پر رکھا گیا ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ دوسری سازش کو روکا جا سکے۔”

حملہ آور کے ممکنہ محرکات
سیاسی اور مذہبی کشیدگی

گذشتہ کچھ ماہ سے امریکہ بھر میں اسرائیل اور فلسطین کے تنازع پر شدید احتجاجات ہو رہے ہیں۔ کچھ شہریان نے احتساب کے نام پر اسلام دشمن یا یہودی مخالف بیانات دہرائے، جبکہ دوسرے گروپوں نے اسرائیل کی پالیسیوں کی بھی مخالفت کی۔

مقامی تفتیشی افسران کا ابتدائی اندازہ ہے کہ حملہ آور کا تعلق ایسے کسی انتہا پسند سیاسی یا مذہبی گروہ سے ہو سکتا ہے جو اسرائیل کے وجود کی مخالفت کرتا ہے یا مقامی یہودی کمیونٹی کے خلاف جذبات رکھتا ہے۔

سماجی میڈیا کا کردار

واقعے سے قبل حملہ آور نے ممکنہ طور پر ٹک ٹوک اور گیبریلی اکاؤنٹس پر جھوٹی خبریں اور گمراہ کن مواد پوسٹ کیا تھا، جس میں اس نے اپنی نفرت انگیز سوچ کا اظہار کیا۔

بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اس نے آن لائن فورمز پر ایسے گروپوں کے ساتھ شمولیت کا اشارہ دیا جنہوں نے اسرائیل کی حمایت کرنے والوں پر حملوں کو “ہمت و جرات” کا کام قرار دیا تھا۔

متاثرہ گروپوں اور کمیونٹی کا ردِ عمل
یہودی کمیونٹی

ڈینور کے یہودی کونسل برائے انصاف اور امن کے نمائندے نے کہا:

“یہ واقعہ ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ دنیا بھر میں جہاں بھی اسرائیل کے حق میں آواز اٹھائی جائے، وہاں کچھ انتہا پسند عناصر نفرت پھیلا رہے ہیں۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے جرائم کے خلاف سختی سے ایکشن لیا جائے اور کمیونٹی کو تحفظ فراہم کیا جائے۔”

اسلامی تنظیموں کی مذمت

مقامی اسلامک سوسائٹی آف کولوراڈو نے اس حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا:

“یہ اقدام کسی بھی مذہبی یا سیاسی نعرے کے تحت ظالمانہ فعل ہے۔ ہمیں امید ہے کہ مقامی انتظامیہ اس کی مکمل تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو قانون کے مطابق سزا دلائے گی۔”

عام شہری اور حقوقِ انسانی کے کارکن

شہری معاشرتی کارکنوں نے بھی امن کی اپیل کی اور کہا کہ:

“عوام کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔ سیاسی اور مذہبی آراء میں اختلاف ہو سکتا ہے، مگر اس کی بنیاد پر کوئی شخص دوسروں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ ہمیں ایسے واقعات کے خلاف ایک پیج پر آنا ہوگا۔”

کمانڈوز کی طلبی اور آئندہ حکمتِ عملی
کمانڈوز کی تعیناتی

ریاستی گورنر اور پولیس نے اسپیشل آپریشن گروپ (SOG) اور S.W.A.T ٹیموں کو ڈینور اور آس پاس کے علاقوں میں فوری طور پر الرٹ کر دیا ہے۔ یہ ٹیمیں ممکنہ طور پر کسی دیگر منصوبے کو ناکام بنا سکتی ہیں اگر حملہ آور کے کوئی ساتھی ہوں۔

کمانڈو دستوں کو علاقے میں تلاشی مار کر اضافی ہتھیار، گولہ بارود اور شواہد اکٹھے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان سے یہ بھی تفتیش کی جائے گی کہ حملہ آور نے کون سے مقامات پر پناہ لی اور اس کو کس نے اس کی کارروائی کے لیے تیار کیا۔

قانونی کارروائیاں

مقامی پراسیکیوٹر آفس نے تفتیش کے پہلے مرحلے میں حملہ آور کے خلاف فائرنگ سے زخمی کرنے اور دہشت گردی کے الزامات عائد کیے ہیں۔

مقدمے کی نوعیت اور الزامات کی شدت کی بناء پر ممکنہ طور پر فیڈرل کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے گا، جہاں تا حیات قید یا سزائے موت تک کے اہداف ہو سکتے ہیں۔

سیکیورٹی اقدامات میں اضافہ

ڈینور اور آس پاس کے علاقوں میں اسرائیل یا فلسطین کے حق میں نکالی جانے والی ریلیوں کے دوران ہیلی کاپٹرز، ڈرون نگرانی اور سڑکوں پر اینٹی ٹینک بتنک فورسز کو متعین کیا جائے گا۔

مستقبل میں ایسے پروگرام منعقد کرنے والوں سے پہلے سیکیورٹی کلیئرنس اور ریسک اسسسمینٹ کے لیے مفصل درخواستیں طلب کی جائیں گی، تاکہ پیشگی خطرات کا تجزیہ کیا جا سکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں