“پریشانی اور درد کی گواہی: فلسطینیوں کا درد بھوک اور قحط کی شدت میں!”

فلسطین میں جاری بحران نے نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی سطح پر بھی بے شمار مسائل کو جنم دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھوک اور قحط کی وجہ سے فلسطینی عوام کا حال بہت زیادہ کٹھن ہو چکا ہے، اور ان کی حالت زار بیان کرتی ہے کہ “بم سے مرنا آسان ہے، مگر بھوک سے مرنا بہت مشکل ہے۔”

یہ الفاظ فلسطینیوں کی ایک عمیق درد اور پریشانی کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں روز بروز بڑھتی ہوئی قحط اور خوراک کی کمی نے لوگوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔ جب جنگ اور بمباری کا سامنا تھا، تب بھی وہ جانتے تھے کہ ایک لمحے کی تکلیف ہو گی، مگر موجودہ صورتحال میں وہ روزانہ کی بنیاد پر زندگی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

بھوک کا اثر:
فلسطینی علاقوں میں خوراک کی کمی اور امدادی سامان کی ناکافی فراہمی نے عوام کو ایک نئی قسم کی اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ جب انسانی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت، یعنی کھانا، دور ہو جائے، تو یہ تکلیف کا ایک نیا دروازہ کھولتا ہے۔ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت یعنی زندہ رہنا بھی ایک سوال بن جاتی ہے۔

موت کا انتخاب:
فلسطینی عوام جو بھوک اور قحط کی شدت کا شکار ہیں، وہ روزانہ اپنی زندگیوں کے ایک اور دن کو محض برداشت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بمباری اور جنگ کے دوران، اگرچہ موت کا سامنا ممکن تھا، لیکن اب بھوک اور قحط کے سبب زندگی کے ہر لمحے میں اذیت کا سامنا ہے۔ یہ ایک عجیب اور دل دہلا دینے والی حقیقت ہے کہ وہ خود کو اس شدت کی تکلیف سے نجات پانے کے لیے موت کی دعا کرنے پر مجبور ہیں۔

بین الاقوامی برادری کے لیے پیغام:
یہ حالات دنیا کو اس بات کی یاد دہانی کراتے ہیں کہ جنگ اور بحران صرف میدان جنگ تک محدود نہیں رہتے؛ یہ عام لوگوں کی زندگیوں کو بھی برباد کر دیتے ہیں۔ عالمی برادری کو اس انسانی بحران کے حل کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فلسطینی عوام کی زندگی میں کچھ سکون اور امید واپس آ سکے۔

یہ فلسطینیوں کی زبانِ حال ہے جو بتا رہی ہے کہ جنگ اور قحط کی شدت انسان کے حوصلے اور برداشت کو کس حد تک آزما سکتی ہے۔ ان کی آواز ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ انسانی زندگی کی اہمیت اور اس کا تحفظ عالمی سطح پر سب سے بڑی ترجیح ہونی چاہیے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں