“پنجاب میں بدلتے سیاسی منظرنامے کی گھنٹی بج چکی ہے — اور اس بار میدان بلدیاتی انتخابات کا ہے!”

2025 کا سال پنجاب کی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہونے جا رہا ہے، جہاں بلدیاتی انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ ستمبر میں ممکنہ الیکشن کے پیش نظر مسلم لیگ (ن) نے اپنی صفیں درست کرنا شروع کر دی ہیں، اور مقامی قیادت کو عوامی رابطوں کی مہم تیز کرنے کی ہدایت جاری ہو چکی ہے۔ ایسے میں جب مرکز اور پنجاب دونوں میں ن لیگ کی حکومت ہے، پارٹی کو یقین ہے کہ یہ انتخابات ایک بار پھر اس کی مقبولیت کو ثابت کرنے کا موقع بنیں گے۔ ترقیاتی منصوبوں کی قطار، سڑکوں کا جال، اسکولوں اور اسپتالوں کی تزئین و آرائش، یہ سب اب سیاسی ہتھیاروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار انتخابات صرف سیاسی نہیں بلکہ تعلیمی بنیادوں پر بھی لڑے جائیں گے۔ نئے ضوابط کے تحت چیئرمین کے لیے بی اے، وائس چیئرمین کے لیے ایف اے، اور کونسلر کے لیے میٹرک کی شرط رکھی گئی ہے۔ یہ قدم جہاں ایک طرف گورننس کا معیار بلند کرنے کی کوشش ہے، وہیں دیہی علاقوں میں امیدواروں کی تعداد پر اثر انداز ہو سکتا ہے، جس پر تنقید کا امکان بھی موجود ہے۔
سب سے بڑی تبدیلی مگر شاید یہ ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025 کے تحت ضلعی کونسلوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ پنجاب کی مقامی سیاست میں ایک زلزلہ ثابت ہو سکتا ہے، جہاں اختیارات کی منتقلی کا خواب بیوروکریسی کے دفتری میزوں تلے دب سکتا ہے۔ ایک طرف عوامی نمائندے ہیں، جو نچلی سطح پر تبدیلی کے خواہاں ہیں، اور دوسری طرف ایک طاقتور بیوروکریٹک نظام جو اب زیادہ اختیار کے ساتھ سامنے آ رہا ہے۔
اس بدلتی فضا میں صرف ایک چیز طے ہے — ستمبر میں پنجاب کے گلی کوچے صرف ووٹ کے لیے نہیں بلکہ نظام کی نئی سمت کے لیے گونجیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ نیا نظام عوام کو مضبوط کرے گا یا اختیارات کے کھیل میں محض ایک اور داؤ ہوگا؟ضمنی الیکشن کی تیاریاں،حکومت کا 17 اپریل کو عام تعطیل کا اعلان