“ایران سے لاکھوں افغانیوں کی ملک بدری: سرحد پار ایک نئی بے وطنی کا آغاز”

ایران میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو حالیہ دنوں میں ملک بدر کر دیا گیا ہے، اور یہ عمل تیزی سے جاری ہے۔ ایرانی حکام کے مطابق یہ اقدام “غیر قانونی مہاجرت” کے خلاف کیا جا رہا ہے، جبکہ انسانی حقوق کے ادارے اسے ایک انسانی بحران قرار دے رہے ہیں۔ ایران میں سالوں سے مقیم لاکھوں افغان خاندان اب ایک بار پھر بےوطن ہو کر افغانستان کی سرزمین پر پناہ ڈھونڈنے پر مجبور ہو گئے ہیں — ایک ایسے ملک میں جو پہلے ہی معاشی تباہی، اندرونی انتشار، اور عالمی تنہائی کا شکار ہے۔

ایران میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد دہائیوں سے موجود تھی، خاص طور پر 1979 کی جنگ، پھر 2001 کے بعد امریکہ کی مداخلت اور طالبان کے حالیہ اقتدار سنبھالنے کے بعد۔ ان میں سے بہت سے لوگ مزدوری کرتے تھے، تعمیراتی کاموں میں شامل تھے، یا غیر رسمی شعبوں میں محنت مزدوری کے ذریعے اپنا گزر بسر کرتے تھے۔ مگر اب ان کے پاس یا تو قانونی دستاویزات نہیں ہیں، یا ایران کی سخت پالیسیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ملک بدری کا عمل صرف ایک انتظامی کارروائی نہیں رہا — ہزاروں خاندانوں کو پولیس نے حراستی مراکز میں رکھا، خواتین اور بچوں کو بھی ان کی مرضی کے خلاف افغان سرحد پر چھوڑا گیا۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں نہ اپنی تنخواہیں ملیں، نہ گھر خالی کرنے کے لیے مناسب وقت، اور نہ ہی واپسی کے لیے کوئی سہولت۔ سرحد کے اس پار افغانستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں — طالبان حکومت کے تحت روزگار کے مواقع کم ہیں، امداد محدود ہے، اور ہزاروں مہاجرین کیلئے رہائش، خوراک اور صحت کی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔

اقوام متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس عمل پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایران کو چاہیے کہ وہ اس طرح کے بڑے پیمانے پر انخلاء سے پہلے مناسب بین الاقوامی مشاورت کرے، اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کو مدنظر رکھے۔

مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ان لاکھوں افغانوں کے لیے اب نہ ایران میں جگہ ہے، نہ افغانستان میں امید۔
اور سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے — جیسے ان لوگوں کی زندگی، تاریخ اور مستقبل کی کوئی قیمت ہی نہ ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں