وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز پیش کر دی ہے، جس کا مقصد مہنگائی کے بڑھتے دباؤ میں عوامی ملازمین کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانا ہے۔

گزشتہ چند ماہ میں صارف قیمتوں کی شرح (CPI) میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں بنیادی اجناس، ایندھن اور روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ اس مہنگائی کے دباؤ نے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی خریداری کی قوت کم کر دی، جس سے معیشت کے نچلے اور متوسط طبقوں پر بھاری اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کی صورت میں پبلک سیکٹر کے عوامی ملازمین کے معیارِ زندگی میں مزید تنزل متوقع تھا۔

حکومت نے عوامی شعبے کے ملازمین کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتے ہوئے مالیاتی سال 2025–26 کے بجٹ سے قبل یہ تجویز تیار کی ہے۔ اس کے تحت نہ صرف اوسط گریڈ 1 تا 22 کے سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں 10 فیصد اضافہ ہو گا بلکہ تمام ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی ماہانہ پنشن میں بھی اسی تناسب سے اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

تجویز کی تفصیلات
تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ:

ہر سرکاری ملازم کی بنیادی تنخواہ (Pay Scale) میں یکساں شریعت کے تحت۔ مثلاً اگر گریڈ 10 میں کام کرنے والے ملازم کی ماہانہ بنیادی تنخواہ 50,000 روپے ہے تو وہ اب بڑھ کر 55,000 روپے ہو جائے گی۔

اضافی مراعات، جیسا کہ ہاؤسنگ الاؤنس، میڈیکل الاؤنس یا دیگر الاؤنسز پر اس کا اطلاق فی الحال نہیں کیا گیا۔ بنیادی پے اس میں شامل ہے، الاؤنسز تبدیلی کے مرحلے میں الگ زیرِ غور رہیں گے۔

پنشنرز کے لیے 10 فیصد اضافی ریلیف:

ریٹائرمنٹ کے بعد جو پنشنرز ماہانہ 40,000 روپے وصول کر رہے ہیں، وہ چابہار (ریلیف) کے بعد 44,000 روپے ماہانہ لینے کے اہل ہو جائیں گے۔

اس کا اطلاق ان پنشنرز پر ہو گا جو کم از کم ایک سال قبل ریٹائر ہو چکے ہوں، تاکہ نئی ریٹائرمنٹ لینے والے پنشنرز کے حقوق بھی محفوظ رہیں۔

نوٹیفکیشن کا شیڈول:

وزارتِ خزانہ نے کہا ہے کہ کابینہ کے تائید نامے کے بعد ایف بی آر اور اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کو اگلے دس دنوں میں متعلقہ پالیسی نوٹیفائی کر دی جائے گی۔

اضافی رقم جون کے پہلے ہفتے سے ملازموں کے بینک کھاتوں میں مستحکم کر دی جائے گی، تاکہ جولائی 2025 کی تنخواہ نئے اضافے کے مطابق ادا ہو۔

مالیاتی اثرات اور بجٹ کا تخمینہ
سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس نوعیت کا 10 فیصد اضافہ سالانہ تقریباً 250 سے 300 ارب روپے کے اضافی بوجھ کا باعث بن سکتا ہے۔

مالیاتی امور کی ڈویژن نے اس تجویز کو اپنی ابتدائی جائزہ رپورٹ میں شامل کیا ہے، جس کے مطابق اگر موجودہ ٹیکس آمدنیوں میں اضافہ نہ ہوا تو اس سرکاری خرچ کو پورا کرنے کے لیے اضافی قرض لینے یا ترقیاتی منصوبوں میں کمی کی صورت اختیار کرنی پڑ سکتی ہے۔

وزیرِ خزانہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ٹیکس چھوٹ کی مد میں اضافی انفراسٹرکچر یا اہم ترقیاتی پراجیکٹس متاثر نہیں ہوں گے، کیونکہ حکومت غیر روایتی ٹیکس اصلاحات اور ترقی یافتہ ملکوں سے روابط سے اضافی رقم حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔

حکومتی موقف اور بیانات
وزیرِ خزانہ کا بیان:
“ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی عوامی ملازمین کی فلاحِ عامہ کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں سرکاری ملازمین کا تحفظ ناگزیر ہے۔ ہم نے یہ اضافہ اس لیے تجویز کیا ہے تاکہ ان کے معیارِ زندگی میں استحکام رہے اور سرکاری شعبے میں حوصلہ افزائی بڑھے۔”

سیکرٹری خزانہ کا موقف:
“اس نوعیت کے فیصلوں کا اثر مختصر دور میں بجٹ خسارے پر ضرور پڑتا ہے، لیکن پبلک سیکٹر کے ملازمین کی حوصلہ افزائی سے طویل مدتی ترقیاتی سرگرمیوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے مالیاتی تجزیات میں اس اضافے کو شامل کر لیا ہے اور منصوبہ بندی کی ہے کہ ٹیکس اصلاحات اور اثاثہ جات کی نیلامی سے اضافی ریونیو حاصل کیا جائے گا۔”

ملازمین اور پنشنرز کے ردِعمل
وفاقی ملازمین کے یونینز:
یونین نے تجویز کا خیر مقدم کیا اور کہا: “ہم عرصہ دراز سے تنخواہوں میں مستقل اضافہ چاہتے تھے، خصوصاً گریڈ 1 تا 16 کے ملازمین جن کی تنخواہیں مہنگائی کی شرح کے بہت پیچھے چل رہی تھیں۔ یہ 10 فیصد اضافہ کم از کم بنیادی اخراجات پر کسی حد تک قابو پانے میں مددگار ثابت ہو گا۔”

پنشنرز ایسوسی ایشن:
ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ “پینشنرز کی زیادہ تر آمدنی صرف پینشن پر منحصر ہے۔ گزشتہ دو برس سے قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ اس صورتِ حال میں 10 فیصد اضافے سے ریٹائرڈ افراد کو بنیادی ضروریات پر اخراجات پورے کرنے میں وقتاً فوقتاً آسانی ہو گی۔”

مقامی نمائندے:
صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن رہنما نے سوال کیا کہ آخر یہ اضافی رقم کہاں سے آئے گی؟ انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “فی الحال بجٹ کا خسارہ بڑھ رہا ہے، نئی ٹیکس اصلاحات عوام پر بوجھ ڈالیں گی۔ ملازمین کی مدد ضروری ہے، لیکن اس کا بوجھ عوامی فلاحی پروگرامز کو نہیں اٹھانا چاہیے۔”

کارشناسی جائزہ اور اصلاحی تجاویز
ماہرینِ اقتصادیات کی رائے:
کچھ ماہرین اقتصادیات کا موقف ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں اگر 10 فیصد اضافہ بجٹ خسارے کو مزید بڑھائے گا تو افراطِ زر تیز ہو سکتی ہے۔ ان کا مشورہ تھا کہ سرمایہ کاری کے مشاہداتی پیکیجز اور بیرونی قرضوں کی نئی اقساط کے ذریعے یہ اضافی رقم مختص کی جائے، تاکہ عوامی شعبے کی استعداد بڑھ سکے اور معیشت مستحکم رہے۔

ٹیکس اصلاحات کا امکان:
وزارتِ خزانہ نے امکان ظاہر کیا ہے کہ قلیل مدت میں بڑی اشیا (جیسا کہ پر لگژری گاڑیاں، مہنگے جائیداد کے ذخائر) کرنے والوں پر اضافی ٹیکس عائد کرنا اور نان فائلرز کے اثاثے منظرِ عام پر لانا پہلے سے زیر غور ہے۔ اگر یہ اصلاحات جلد تکمیل پذیر ہو گئیں تو بجٹ پر دباؤ کافی حد تک کم ہو سکے گا۔

دیگر تجاویز:

بعض ناقدین نے تجویز دی کہ بجٹ میں سبسڈیوں کو نشانہ بنانے کے بجائے صحت، تعلیم اور مقامی صنعتوں میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی جائے۔ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور عوام کو براہِ راست ریلیف ملے گا، جبکہ ملازمین کے تنخواہ و پنشن میں اضافے کا بوجھ محدود رہے گا۔

علاوہ ازیں، تنخواہوں میں اضافہ اس وقت زیادہ مؤثر ہو گا جب ساتھ ہی حکومتی اخراجات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے اور غیر ضروری اخراجات کو محدود کیا جائے، تاکہ توازن برقرار رہے۔

متوقع چیلنجز اور آئندہ کے اقدامات
بجٹ منظوری:
یہ اضافہ اب کابینہ سے منظوری کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ ممکنہ طور پر وفاقی بجٹ اجلاس میں وزارتِ خزانہ اس کی تفصیلات اور مالی ذرائع نکالنے کا خاکہ بھی پیش کرے گی۔ اپوزیشن جماعتوں کے تعاون کے بغیر بجٹ متفقہ طور پر منظور نہیں ہو گا، اس لیے آئندہ دو ہفتوں میں سیاسی لابی بازی متوقع ہے۔

نفاذ کا عمل:

بڑھائی گئی تنخواہیں جون کے دوسرے ہفتے تک ملازمین کو ملنا شروع ہو جائیں گی۔ پنشنرز کے لیے نیا ریلیف بھی اسی ماہ جاری ہو گا۔

ایف بی آر اور اکاؤنٹس ڈویژن مشترکہ طور پر مواصلاتی نظام تیار کریں گے تاکہ ہر سرکاری ڈیپارٹمنٹ میں اضافہ بغیر تاخیر کے لاگو ہو۔

معیشت پر اثرات:
چونکہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کا مجموعی طور پر تقریباً پانچہزار ارب روپے سالانہ بجٹ میں بطور پے سکیل اور پنشن شامل ہوتا ہے، 10 فیصد اضافے سے نقدی بہاؤ میں لاکھوں نئے روپے شامل ہوں گے۔ یہ اضافی رقم صارفین کے ہاتھ میں خیراجات بڑھائے گی، لہٰذا مارکیٹ میں اشیائے خوردونوش اور خدمات کی قیمتیں ایک مرتبہ پھر بڑھ سکتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ساتھ ہی مہنگائی کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے لیے مانیٹری پالیسیز سخت رکھنے اور کریڈٹ کی شرح سود میں اضافہ کرنے پر غور کرنا پڑے گا۔
سندھ، پنجاب یا وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کی بھاری مشکلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تنخواہوں و پنشن میں 10 فیصد اضافے کی تجویز دی ہے۔ اس اقدام کا مقصد عوامی ملازمین کی خریداری کی طاقت بحال کرنا اور پنشنرز کو ریلیف فراہم کرنا ہے۔ تاہم اس کے طویل مدتی مالی اثرات بجٹ خسارے اور افراطِ زر پر مثبت یا منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں منظوری، ٹیکس اصلاحات، اور حکومتی اخراجات کا دوبارہ جائزہ آئندہ ہفتوں میں اس پیکیج کی کامیابی طے کرے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں