“اسٹیج ڈراموں میں خواتین فنکاراؤں کے لباس کے انتخاب کی منظوری حکومت دے گی”

حالیہ دنوں میں ایک دلچسپ اور کسی حد تک حیران کن خبر سامنے آئی ہے جس نے اسٹیج ڈراموں سے وابستہ افراد کے ساتھ ساتھ عام عوام کی توجہ بھی حاصل کی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اب اسٹیج ڈراموں میں خواتین فنکارائیں کون سے ملبوسات پہنیں گی، اس کی منظوری حکومت دے گی۔ یہ بات بظاہر معمولی لگتی ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپے ہوئے مفہوم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ فن ہمیشہ سے ایک ایسا ذریعہ رہا ہے جو انسان کو سوچنے، محسوس کرنے اور اظہار کرنے کا موقع دیتا ہے۔ لیکن جب فن کے اظہار پر اس طرح کی مداخلت کی جائے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ہم واقعی تخلیقی آزادی پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں۔
اسٹیج ڈراموں پر ماضی میں بھی مختلف اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں، خاص طور پر ان کے موضوعات، مکالمات اور لباس کے حوالے سے۔ کچھ حلقے ان ڈراموں کو غیر اخلاقی قرار دیتے ہیں، جبکہ دوسرے لوگ انہیں عوامی تفریح کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس بحث کے درمیان، حکومت کی طرف سے ملبوسات کی منظوری کو لازم قرار دینا ایک نیا باب کھول رہا ہے۔ اس فیصلے کو بظاہر “اخلاقی اقدار کے تحفظ” کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے، لیکن یہ بات نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اس سے فنکاروں کی خودمختاری پر اثر پڑے گا۔
فنکار برادری کی ایک بڑی تعداد نے اس فیصلے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لباس کے انتخاب کو سرکاری سطح پر کنٹرول کرنا نہ صرف فن کی توہین ہے بلکہ یہ ایک طرح سے فنکار کے اعتماد پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر حکومت واقعی اصلاح چاہتی ہے تو اسے تربیتی اقدامات، معیار کی بہتری اور اخلاقی تربیت پر توجہ دینی چاہیے، نہ کہ لباس کے رنگ، انداز اور کٹ پر۔
سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے ملے جلے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ کچھ افراد نے حکومت کی کوشش کو سراہا اور کہا کہ فن میں بھی حدود ہونی چاہئیں، جبکہ اکثریت نے اسے غیر ضروری مداخلت قرار دیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں فنکاروں پر اعتماد کرنا چاہیے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کسی دباؤ کے بغیر پروان چڑھنے دینا چاہیے۔
آخرکار، سوال یہ نہیں کہ کپڑے کیسے ہوں، سوال یہ ہے کہ ہم بطور معاشرہ فن کو کن اصولوں کے تحت دیکھتے ہیں۔ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ہمارے فنکار عالمی سطح پر اپنا نام بنائیں اور معیاری مواد تخلیق کریں، تو ہمیں ان پر اعتماد کرنا سیکھنا ہوگا۔ حکومت کا کام نگرانی سے زیادہ معاونت ہونا چاہیے۔ کسی بھی شعبے میں ترقی تبھی ممکن ہے جب وہاں آزادی، اعتماد اور تخلیق کو اہمیت دی جائے۔