دیوارِ چین: ایک تاریخی عظمت یا انسانیت پر ظلم کی خاموش گواہی؟

دنیا دیوارِ چین کو فخر سے انسان کے کمالات میں شمار کرتی ہے۔ سیاح اسے حیرت سے دیکھتے ہیں، مورخ اسے فنِ تعمیر کی علامت مانتے ہیں، اور اقوام اسے اپنی شناخت کا حصہ بناتی ہیں۔ مگر کیا ہم نے کبھی اس دیوار کے سائے میں دبی سسکیوں کو سنا؟ ان ہاتھوں کو محسوس کیا جو کبھی اس کی بنیاد رکھنے میں مصروف تھے، مگر اب کہیں تاریخ کے صفحوں میں بھی نہیں ملتے؟
دیوارِ چین — فخر یا فریاد؟
دیوارِ چین صرف پتھروں اور اینٹوں سے بنی ایک دفاعی دیوار نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا خاموش قبرستان ہے جہاں لاکھوں محنت کشوں کی سانسیں، خواب، اور زندگیاں دفن ہیں۔ اس دیوار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ “انسانی عظمت کی علامت” ہے۔ مگر اگر اس دیوار کی اینٹوں سے پوچھا جائے، تو شاید وہ چیخ چیخ کر کہیں:
“یہ اینٹیں صرف مٹی کی نہیں، کسی کی سانسوں کی قیمت پر چنی گئی ہیں۔”
محنت کشوں کی قربانی — بے نام اور بے آواز
تاریخ میں دیوارِ چین کی تعمیر کو ایک بڑے قومی مقصد کے طور پر بیان کیا گیا، مگر اس عمل میں جن مزدوروں کی جانیں گئیں، وہ کہیں بھی یاد نہیں کیے جاتے۔
ہزاروں نہیں، لاکھوں افراد نے اپنی جوانی، صحت، حتیٰ کہ اپنی جانیں اس دیوار میں دفن کر دیں۔
نہ کوئی کتبہ، نہ کوئی یادگار — صرف ایک دیوار جو ان کی قربانی کو نگل گئی۔
“جو مزدور نہ لوٹے، جو ماں کی گودیں سونی ہوئیں،
جو بیٹیاں انتظار میں بوڑھی ہو گئیں…
ان کا نام کہیں نہیں، ان کا غم کہیں محفوظ نہیں۔”
ایک اینٹ کا درد — محسوس کیجیے
اگر آپ نے کبھی دیوارِ چین کو ہاتھ لگایا ہو، تو شاید آپ نے بھی وہی سنسناہٹ محسوس کی ہو، جو ایک حساس دل کو جھنجھوڑ دے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی کے ٹھنڈے ہاتھوں نے آپ کو تھام لیا ہو، جیسے کوئی خاموش چیخ ہوا میں تحلیل ہو کر آپ کے کانوں تک پہنچ گئی ہو۔
“یہ دیوار صرف حفاظت کی علامت نہیں،
یہ ایک قبرستان ہے — جہاں لاشیں نہیں دفن، بلکہ قید کی گئیں۔”
کیا ہم نے کبھی ان کا ذکر کیا؟
یہ سوال ہر انسان سے ہے:
ہم نے دیوار کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی تو ناپ لی، مگر کیا ہم نے ان کے دکھ کو بھی ماپا؟
کیا ہم نے کبھی ان مزدوروں کے لیے جھک کر دعا کی؟
کیا ہم نے کبھی ان کی قربانیوں کو اپنی گفتگو کا حصہ بنایا؟
“کیا تاریخ نے کبھی ان کے حق میں کچھ لکھا؟
یا ہم صرف دیوار کی مضبوطی کے قصے دہراتے رہ گئے؟”
دیوار نہیں، نوحہ ہے
دیوارِ چین کو اکثر “صدیوں پرانی” کہا جاتا ہے، لیکن اگر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ دیوار صدیوں پرانی نہیں —
بلکہ وہ نوحہ ہے جو شاید کسی ماں کی کوکھ سے نکلا اور اب ہوا کے دوش پر اڑتا پھرتا ہے،
کسی ایسے دل کی تلاش میں…
جو سنے، سمجھے، اور محسوس کرے۔
اختتامیہ
دیوارِ چین کو دیکھنے سے پہلے، اسے “محسوس” کیجیے۔
تاریخ صرف فاتحین کی نہیں ہوتی، وہ ان کی بھی ہوتی ہے جو خاموشی سے فنا ہو گئے، جن کا کوئی نام نہیں، کوئی شناخت نہیں — صرف چند اینٹیں ہیں، جن کے اندر درد، محبت، قربانی، اور خاموش فریادیں دفن ہیں۔